اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی میں مسلط معاشی ناکہ بندی اور اسکے نتیجے میں بگڑتی ہوئی انسانی صورت حال پرشدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ پیر کے روز نیویارک میں میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے بان کی مون نے کہا کہ غزہ پر مسلط کی گئی معاشی ناکہ بندی اور گذشتہ موسم سرما میں غزہ پر کیے گئے حملے نے فلسطینی آبادی پر نہایت گہرے منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین میں معاشی ناکہ بندی کے خاتمے اورعلاقے کو جنگوں سےنکالنے کے لیے انہوں نے سابق وزیراعظم ایہود اولمرٹ اور موجودہ بنیامین نیتن یاھو سے متعدد بار ٹھوس اقدامات کرانے کی کوشش کی تاہم، اس امر پر انہیں شدید افسوس ہے کہ وہ اسرائیلی حکومت کو فلسطین میں معاشی ناکہ بندی ختم کرنےمیں کامیاب نہیں ہو سکے۔ بان کی مون کا کہنا تھا کہ وہ فلسطین میں معاشی ناکہ بندی کے خاتمے کے لیے کوششیں جاری رکھیں گے۔ فلسطین سے متعلق اقوام متحدہ کے فیصلوں کو پس پشت ڈالنے کے بارے میں ایک صحافی کے سوال کے جواب میں عالمی ادارے کے سربراہ نے کہا کہ انہیں اس بات پر افسوس ہے کہ اسرائیل اقوام متحدہ کے ساتھ تعاون نہیں کر رہا تاہم وہ اسرائیل پر دباؤ بڑھانے کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے زیرانتظام پناہ گزینوں کے لیے سرگرم ادارہ”اونروا” خالص انسانی بنیادوں پر خدمات انجام دے رہا ہے، اس سلسلے میں فلسطینی اور اسرائیلی دونوں قوموں کو اقوام متحدہ سے تعاون کرنا ہوگا۔ ایک سوال کے جواب میں بان کی مون نے فلسطینی سیاسی جماعتوں پر زور دیا کہ وہ آپس کے اختلافات بھلا کر جلد مفاہمت کے عمل کوعملی شکل دیں۔ انہوں فلسطینیوںکے درمیان مفاہمت کے لیے مصر کی کوششوں کی بھی تعریف کی۔