مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
امریکی منصوبے کے ذریعے غزہ پٹی کی ازسرنو تشکیل کے حوالے سے یورومیڈ انسانی حقوق آبزرویٹری کی پیش کردہ تفصیلات سنگین خطرات کی نشاندہی کرتی ہیں جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ فلسطینی سرزمین پر جبری جغرافیائی تقسیم نافذ کر کے قابض اسرائیل کی فوجی بالادستی کو مضبوط کیا جائے اور ایسی گھٹن زدہ صورتحال پیدا کی جائے جو فلسطینیوں کو اپنی اصل سرزمین سے زبردستی نقل مکانی پر مجبور کر دے۔
آبزرویٹری کی جانب سے جاری کی گئی اس جامع رپورٹ کو مرکزاطلاعات فلسطین نے دیکھا ہے۔ رپورٹ میں سخت تنبیہ کی گئی ہے کہ یہ منصوبہ غزہ کے باشندوں پر ایک نئی جبری ڈیموگرافی مسلط کرتا ہے جو بند گھیٹوز پر مبنی “کنٹینر شہروں” کی شکل میں ہو گی۔ یہ منصوبہ عملی طور پر زمین اور وسائل کے قبضے خصوصاً ساحلی علاقہ اور گیس کے ذخائر کو قابض اسرائیل کے ہاتھ میں دے دیتا ہے جس کے نتیجے میں فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق بالخصوص حقِ خودارادیت کو شدید دھچکا پہنچتا ہے۔
جغرافیائی تقسیم کے ذریعے فوجی کنٹرول اور جبری ہجرت کی راہ ہموار
یورومیڈ انسانی حقوق آبزرویٹری نے خبردار کیا ہے کہ امریکی منصوبہ غزہ پٹی کو دو بنیادی حصوں میں تقسیم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے: سرخ اور سبز۔ ان دونوں کے درمیان ایک زرد لائن ہو گی جو مکمل طور پر عسکری نوعیت کی سرحد کے طور پر قائم کی جائے گی۔
آبزرویٹری کے مطابق اس منصوبے میں ایسے خطرات پوشیدہ ہیں جو فلسطینیوں کو ان کے آبائی گھروں سے زبردستی بے دخل کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ منصوبے کے تحت غزہ کے وسیع علاقوں کو بند فوجی زون قرار دے کر براہِ راست قابض اسرائیل کے فوجی کنٹرول کے تحت کیا جائے گا۔
آبزرویٹری کے مطابق یہ منصوبہ امریکی سول ملٹری کوآرڈی نیشن سینٹر کے ذریعے بنائے جانے والے انتظامات پر مبنی ہے جس میں غزہ کو کڑی جغرافیائی تقسیمات کے ذریعے چھوٹے چھوٹے آبادیاتی بلاکس میں تبدیل کیا جائے گا جن کے گرد مکمل طور پر بند فوجی علاقے ہوں گے۔
منصوبے کے مطابق غزہ کے نصف سے زائد حصے کو براہِ راست فوجی زون قرار دیا جائے گا جہاں فلسطینیوں کی نقل و حرکت اور بنیادی امداد پر سخت ترین پابندیاں عائد ہوں گی۔ انسانی ضرورتوں کو دباؤ کا ہتھیار بنا کر فلسطینیوں کو نام نہاد “محفوظ علاقوں” میں منتقل ہونے پر مجبور کیا جائے گا۔
منصوبے کے پہلے مرحلے کے تحت غزہ کو سرخ علاقے میں 47 فیصد حصہ دیا جائے گا جہاں زیادہ تر شہری آبادی رہے گی اور سبز علاقے میں 53 فیصد حصہ ہو گا جو مکمل طور پر قابض اسرائیل کے فوجی کنٹرول میں ہو گا۔ اس علاقے میں وہ مسلح گروہ بھی سرگرم ہوں گے جنہیں قابض اسرائیل نے خود تشکیل دے کر فنڈ کیا ہے۔ ان دونوں علاقوں کے درمیان زرد لائن ایسی عسکری سرحد ہوگی جہاں قابض اسرائیلی فوج کو ہر اُس شخص کو گولی مار کر قتل کر دینے کا اختیار ہو گا جو اس کے قریب آئے یا عبور کرنے کی کوشش کرے۔
آبزرویٹری کا کہنا ہے کہ یہ زرد لائن حقیقت میں پہلے ہی کئی مقامات پر نقشوں سے آگے بڑھا دی گئی ہے اور ایک ہزار میٹر سے زیادہ تک آگے سرکا دی گئی ہے تاکہ غزہ کی سرحدوں کو یک طرفہ طور پر دوبارہ کھینچا جا سکے اور فلسطینیوں کی نقل و حرکت پر مزید پابندی عائد کی جا سکے۔ یہ سب کچھ عملی طور پر زمین کے قبضے کے مترادف ہے جس سے غزہ کا جغرافیائی اتحاد ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ساحلی پٹی پر قبضہ اور قدرتی وسائل کی لوٹ مار
آبزرویٹری کے مطابق امریکی منصوبہ قابض اسرائیل کی اس کوشش سے بھی جڑا ہوا ہے جس کا مقصد غزہ کے پورے ساحلی حصے پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ اس کنٹرول کا مطلب ہے کہ غزہ کے ساحل، ماہی گیری کے علاقے، وسیع سمندری وسائل، گیس کے ذخائر اور ساحلی انفرااسٹرکچر پر قبضہ قائم کیا جائے۔
آبزرویٹری نے اس منصوبے کو کھلا غصب، ناجائز قبضہ اور منظم لوٹ مار قرار دیا ہے جو بین الاقوامی قانون کے تحت نہ صرف ممنوع ہے بلکہ قابض قوت کے قانونی فرائض کی کھلی خلاف ورزی بھی ہے۔ بین الاقوامی اصول قائم کرتا ہے کہ کسی مقبوضہ علاقے کے قدرتی وسائل کو قابض طاقت اپنے مفاد میں استعمال نہیں کر سکتی۔
آبزرویٹری کا کہنا ہے کہ ساحلی کنٹرول کی یہ اسکیم ایک طویل المدتی منصوبے کا حصہ ہے جو فلسطینیوں کو اپنے وسائل کے انتظام سے محروم کر دے گی اور قابض اسرائیل کو غزہ کے سمندری اور معاشی میدان میں فیصلہ کن بالادستی فراہم کرے گی۔
کنٹینر شہر… جدید دور کے گھیٹو جو قابض اسرائیل کی سکیورٹی پالیسی کا حصہ
منصوبے میں مجوزہ “کنٹینر شہر” سخت نگرانی والے بند کیمپس کی صورت میں قائم کیے جائیں گے جن میں ہر ایک میں پچیس ہزار فلسطینیوں کو ایک مربع کلومیٹر کی تنگ جگہ پر رہنے پر مجبور کیا جائے گا۔ ان شہروں کو دیواروں اور چیک پوسٹوں سے گھیر دیا جائے گا جہاں سے صرف سخت سکیورٹی جانچ کے بعد گزرنے کی اجازت ہو گی۔
آبزرویٹری کا کہنا ہے کہ یہ کنٹینر شہر دراصل جدید دور کے گھیٹو ہیں جیسے نوآبادیاتی اور نسل پرستانہ ادوار میں انسانوں کو جبراً مقید کیا جاتا تھا۔ ان شہروں میں رہنے والے فلسطینیوں کی زندگیاں قابض اسرائیلی اور امریکی حکام کی جانب سے نافذ کردہ سکیورٹی معیارات کے رحم و کرم پر ہوں گی۔ تعلیم، کام، رہائش اور آزادیِ نقل و حرکت جیسے بنیادی حقوق کو مخصوص سکیورٹی منظوری سے مشروط کر دیا جائے گا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رفح میں ایسے پہلے تجرباتی کنٹینر شہر کا ڈیزائن بھی تیار ہو چکا ہے اور اب فنڈنگ کا انتظار ہے۔ منصوبے کے تحت فلسطینیوں کو جان بوجھ کر سکیورٹی بنیادوں پر تقسیم کیا جائے گا اور ہزاروں افراد کو “کم خطرہ” یا “زیادہ خطرہ” کی درجہ بندی کے مطابق کنٹینر شہروں میں دھکیلا جائے گا۔ اس طرح خوراک، علاج، رہائش اور دیگر خدمات فلسطینیوں کے لیے دباؤ کا ہتھیار بن جائیں گی۔
آبزرویٹری نے واضح کیا کہ ایسی زندگیاں جبری نگرانی میں گزارنے سے فلسطینی اپنی ذاتی اور اجتماعی خودمختاری سے محروم ہو جائیں گے اور غزہ کی شناخت، مستقبل اور حقِ خودارادیت کو شدید نقصان پہنچے گا۔
سیاسی راستہ جو زمین اور قوم کو تقسیم کرتا ہے… امریکہ کا کردار “ثالثی” سے کہیں بڑھ کر
آبزرویٹری نے واضح کیا ہے کہ یہ منصوبہ صرف سکیورٹی کا معاملہ نہیں بلکہ ایک سیاسی منصوبہ ہے جس کا مقصد فلسطینی قوم اور سرزمین کی وحدت کو توڑنا ہے۔ اس کے ذریعے غزہ اور غرب اردن کے درمیان مستقل علیحدگی مسلط کی جائے گی اور غزہ میں ایک نیا سیاسی ڈھانچہ تشکیل دیا جائے گا جو قومی فلسطینی نظام سے کٹا ہوا ہو۔
رپورٹ نے امریکہ کے کردار پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اب ثالث نہیں بلکہ ایک فعال فریق کے طور پر سامنے آیا ہے۔ وہ ایسے زمینی و سیاسی انتظامات ترتیب دے رہا ہے جو قابض اسرائیل کے قبضے اور جبری ہجرت کو “سکیورٹی اقدامات” کے لبادے میں مضبوط کرتے ہیں۔
آبزرویٹری نے کہا کہ امریکہ کی جانب سے سول ملٹری کوآرڈی نیشن سینٹر کی نگرانی اور اپنے اثر و رسوخ کا استعمال بین الاقوامی ذمہ داریوں کے خلاف ہے کیونکہ کوئی بھی ریاست غیر قانونی حالات کو تسلیم کرنے یا انہیں دوام بخشنے میں مدد نہیں دے سکتی۔
آبزرویٹری نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ غزہ کے بارے میں کوئی بھی منصوبہ اس وقت تک جائز نہیں ہو سکتا جب تک کہ قبضہ ختم نہ ہو جائے، قابض اسرائیلی افواج مکمل طور پر واپس نہ چلی جائیں، بری، بحری اور فضائی محاصرہ نہ اٹھا لیا جائے اور غزہ کے عوام کو مکمل آزادی کے ساتھ نقل و حرکت، امداد، بحالی اور شہری انتظام کا حق نہ دیا جائے۔
آبزرویٹری نے اقوام متحدہ اور جنیوا کنونشن کے فریق ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کسی بھی ایسے منصوبے کو مسترد کریں جو قابض اسرائیلی کنٹرول کو نئے ناموں میں دوبارہ پروان چڑھاتا ہے۔ ایسے اقدامات کی حمایت یا توثیق سے گریز کیا جائے جو عملی طور پر زمین کے قبضے، جبری ہجرت یا وسائل کی لوٹ مار کا باعث بنیں۔
آبزرویٹری نے زور دے کر کہا کہ فوری عالمی دباؤ کے ذریعے محاصرہ ختم کیا جائے، گذرگاہیں کھولی جائیں اور بین الاقوامی احتساب کو مضبوط کیا جائے تاکہ کوئی بھی فریق انصاف سے فرار نہ ہو سکے۔