مغربی کنارے میں النجاح اسلامی یونیورسٹی میں شعبہ سیاسیات کے استاد پروفیسر ڈاکٹرعبدالستار قاسم نےعرب لیگ کے سیکرٹری جنرل عمرو موسیٰ کی طرف سے غزہ کی تعمیر نو کو فلسطینی جماعتوں کے درمیان اتحاد سے مشروط قرار دینے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ تباہ حال شہر کی تعمیر کے حوالے سے اس نوعیت کی شرائط عائد کرنا فلسطینیوں اور حماس کو اصولی موقف سے دستبردار کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا کے مترادف ہے۔ اتوار کے روز مرکز اطلاعات فلسطین سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے عبدالستار قاسم نے کہا کہ عمرو موسیٰ غزہ کی تعمیر نو کے سلسلے میں امداد کو مفاہمت سے مشروط کر کے حماس پر چار رکنی عالمی کمیٹی کی شرائط کو تسلیم کرنےکے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کو ہمیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ہمیں مصالحت کی کتنی ضرورت ہے، اس کا ہمیں اندازہ ہے، مصالحت کی آڑ میں فلسطینی عوام کے دیرینہ اور اصولی موقف پر پسپائی کی راہ اختیار کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمرو موسیٰ کا دورہ غزہ ان کا اپنا طے شدہ ایجنڈے یا پروگرام کا حصہ نہیں بلکہ حالات نے انہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا ہے. اگر وہ خود غزہ کی تعمیر نو اور معاشی ناکہ بندی کے خلاف تھے تو انہیں محاصرے کے پہلے روز غزہ آنا چاہیے تھا یا کم ازکم غزہ پر اسرائیل کی طرف سےمسلط کردہ جنگ کے بعد وہ غزہ کا دورہ کرتے لیکن عالمی امدادی قافلے کے بعد ایسے حالات پیدا ہوئے جس پر انہیں غزہ آنا پڑا ہے۔ ڈاکٹر قاسم کا کہنا تھا کہ عرب لیگ غزہ کی معاشی ناکہ بندی کو عملی طور پر ختم کرنا چاہتی ہے تو اسے عمرو موسیٰ کو امدادی سامان اور تعمیراتی میٹریل کےساتھ غزہ بھیجنا چاہیے تھا ۔ عرب لیگ کے سربراہ کا یہ کہنا کہ ان کے دورے کا مقصد عرب لیگ کی معاشی ناکہ بندی کی قراردادوں پر عمل درآمد ہے، لیکن ہمیں معلوم نہیں کہ عرب لیگ کی معاشی ناکہ بندی کی قراردادوں پر عمل درآمد کب ہو گا۔ انہوں نے کہ غزہ کی معاشی ناکہ بندی ختم کرنے لیے تاویلات اور شرائط عائد کرنے کی نہیں بلکہ ٹھوس اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے اور عملی اقدامات کا تقاضا ہے کہ امدادی قافلوں کا رخ غزہ کی طرف کر دیا جائے۔