غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی مسلط کردہ معاشی ناکہ بندی کے باعث جہاں ایک جانب اشیائے خوردونوش اور بنیادی ضروریات کی اشیا کی شدید قلت پائی جارہی ہے وہیں شہر کی نصف آبادی آلودہ اور مضرصحت پانی پینے پرمجبور ہے۔ غزہ میں پیر کے روز انسانی حقوق کی تنظیم”مرکز المیزان برائے انسانی حقوق” کے زیراہتمام غزہ میں پانی کی قلت سے متعلق ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا، جس میں فلسطین میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے مختلف اداروں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ سیمینار کا عنوان” انسانی حقوق کے 61 برس، اہل غزہ کا پانی میں حق” رکھا گیا تھا، جس میں فلسطین اور بعض دیگر ممالک کے پانی اورماحولیات کے ماہرین نے خطابات کیے۔ اس موقع پر میزبان تنظیم”المیزان” کے چیئرمین عصام یونس نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی پانی پر اسرائیلی ڈاکہ 1967ء کے بعد سے تواتر کے ساتھ جاری ہے۔ فلسطینیوں کو پانی کی بنیادی ضروریات سے محروم کرنے کی اسرائیلی پالیسی عالمی انسانی حقوق اور قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ کے بیشتر علاقے پانی کے سنگین بحران سے گذر رہے ہیں، جنگ کے باعث پائپ لائینیں ٹھوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہیں جبکہ اسرائیل کی جانب سے مرمتی سامان غزہ لے جانے میں رکاوٹیں پیدا کرنے سے شہریوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ غزہ کے پانی کے چشموں میں سمندری پانی کی ملاوٹ اور کارخانوں سے نکلنے والے زہریلے پانی کے شامل ہونے سے صاف پانی نہ ہونے کے برابر ہے۔ غزہ کی 90 فیصد آبادی آلودہ پانی پینے پرمجبور ہیں جبکہ سولہ لاکھ آبادی کے اس شہرمیں نصف لوگوں کو آلودہ پانی بھی میسر نہیں۔ پانی کی موجودہ مقدار شہریوں کے لیے بالکل ناکافی ہے۔ المیزان کے سرہراہ کا کہنا تھا کہ غزہ میں پانی کا بحران نیا نہیں بلکہ یہ گذشتہ 40 سال سے جاری ہے۔ اسرائیل نے مختلف حملوں کے دوران غزہ کے 100صاف پانی کے کنوئیں مسمار کردیے ہیں جبکہ 2003ءکے بعد سے اب تک30 کلو میٹر پائپ لائن کو تباہ کیا گیا ہے، جس سے پانی کی فراہمی میں تعطل پیدا ہوچکا ہے۔ عصام یونس نے کہا کہ غزہ میں پانی کی بڑھتی ہوئی قلت مقامی آبادی کے لیے نہایت تشویشناک ہے، سالانہ کم ازکم 80 سے100 ملین مکعب میٹر پانی کی کمی واقع ہو رہی ہے۔ تقریب سے دیگر اداروں کے مندوبین نے اپنے اپنے خطابات میں اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ میں پانی کا بحران حل کرنے کے لیے شہر کی ناکہ بندی اٹھائے۔