غزہ(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) اقوامِ متحدہ کے فنڈ برائے آبادی کے نائب ایگزیکٹو ڈائریکٹر اینڈرو سابرٹن نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کے ایک چوتھائی عوام شدید بھوک کا شکار ہیں، جبکہ حاملہ فلسطینی خواتین تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے تلے اور قحط زدہ حالات میں زندگی اور موت کے درمیان نئی زندگیاں جننے پر مجبور ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قابض اسرائیل کے محاصرے نے غزہ کو مکمل طور پر قحط، تباہی اور ویرانی میں دھکیل دیا ہے “۔غزہ میں پھیلی بربادی اتنی ہولناک ہے کہ مجھے یوں لگا جیسے میں کسی تاریک فلم کے منظر میں ہوں، مگر حقیقت اس سے کہیں زیادہ سفاک ہے۔ یہ تباہی کوئی حادثہ نہیں بلکہ دانستہ درندگی ہے”۔
سابرٹن نے بتایا کہ غزہ میں ہر طرف “بے انتہا ملبے کے ڈھیر” پھیلے ہوئے ہیں، اور یہ منظر وہ اپنی زندگی میں کبھی نہیں بھول پائیں گے۔
خواتین بے گھری اور محرومی کا شکار
انہوں نے انکشاف کیا کہ غزہ کی ہزاروں خواتین اپنے گھر، مال و اسباب سب کچھ کھو چکی ہیں۔ اب ان کے لیے بنیادی حفظانِ صحت کی چیزیں تک میسر نہیں۔ ایک چوتھائی آبادی بھوک سے نڈھال ہے، جن میں کم از کم گیارہ ہزار پانچ سو حاملہ خواتین شامل ہیں، جن کا حال ماں اور بچے دونوں کے لیے تباہ کن ہے۔
زندگی کے بجائے موت کے سائے میں ولادتیں
اقوامِ متحدہ کے اس اعلیٰ عہدیدار کے مطابق، غزہ میں پیدا ہونے والے بچوں میں ستر فیصد قبل از وقت یا کم وزن کے ہیں، جبکہ ہر تیسری حاملہ خاتون کی حالت خطرناک بتائی جاتی ہے۔ اسی دوران، علاقے کے چورانوے فیصد ہسپتال یا تو تباہ ہو چکے ہیں یا ناقابلِ استعمال ہیں۔
انہوں نے کہا کہ “ماں اور بچے کی اموات تیزی سے بڑھ رہی ہیں کیونکہ جان بچانے والی دوائیں ختم ہو چکی ہیں۔ اکثر نومولود بچوں کو ایک ہی انکیوبیٹر میں رکھا جا رہا ہے کیونکہ ایندھن اور طبی آلات دستیاب نہیں۔ غزہ میں اب کوئی بھی ولادت محفوظ یا معمول کے مطابق نہیں ہوتی۔”
سابرٹن کے مطابق بیشتر خواتین کو ہسپتال تک رسائی حاصل نہیں، ایمبولینس سروس ختم ہو چکی ہے اور طبی عملہ ناپید ہے۔ خواتین ملبے، سڑکوں اور کھلے مقامات پر ولادت پر مجبور ہیں، جہاں نہ پرائیویسی ہے نہ تحفظ۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ جنگ بندی سے “امید کی ایک کرن” ضرور پیدا ہوئی ہے، لیکن حقیقی حل صرف “مستقل جنگی کارروائیوں کے خاتمے” میں ہے، کیونکہ “جب تک بمباری نہیں رکے گی، غزہ کے زخم بھرنے کا عمل شروع نہیں ہو سکتا۔”
ناکافی امداد، ماہانہ اذیت
سابرٹن نے بتایا کہ فنڈ برائے آبادی کو حال ہی میں محدود پیمانے پر امداد داخل کرنے کی اجازت ملی ہے، مگر یہ امداد ضرورت کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان کے مطابق ہزاروں امدادی اشیاء ابھی تک سرحدی گذرگاہوں پر رکی ہوئی ہیں، جن میں بچوں کی انکیوبیٹرز، دل کی نگرانی کے آلات، اور خواتین کے لیے حفظانِ صحت کا سامان شامل ہے۔ انہوں نے تمام گذرگاہیں کھولنے اور ایک مستقل محفوظ انسانی راہداری کے قیام پر زور دیا۔
انہوں نے بتایا کہ سات لاکھ سے زائد خواتین اور لڑکیاں ہر ماہ “ماہواری کے عذاب” سے دوچار ہیں، کیونکہ انہیں صاف پانی اور بنیادی اشیاء دستیاب نہیں۔ بعض ماؤں کو کپڑوں کے چیتھڑوں سے گزارا کرنا پڑ رہا ہے۔
سابرٹن نے کہا کہ فنڈ غزہ میں خواتین اور بچیوں کے لیے صحت و تحفظ کی خدمات کی بحالی کا منصوبہ بنا رہا ہے، جس میں روزانہ تقریباً 130 زچگی کیسز کے لیے مراکز کی تعمیرِ نو، نئے ایمرجنسی مراکز کا قیام، قابلات کے نیٹ ورک کا پھیلاؤ اور ضروری ادویات کی فراہمی شامل ہے۔
خواتین کے لیے محفوظ مقامات ناگزیر
انہوں نے زور دیا کہ خواتین کے لیے محفوظ مقامات دوبارہ کھولنے کی ضرورت ہے تاکہ صنفی بنیاد پر بڑھتے ہوئے تشدد کا مقابلہ کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی خواتین شدید ذہنی صدمات سے گزر رہی ہیں، جن کے اثرات نسلوں تک محسوس کیے جائیں گے۔
قابض اسرائیل کی جانب سے سنہ2023ء کے 7 اکتوبر سے غزہ پر مسلط کی گئی جنگ میں اب تک 68 ہزار 280 فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 70 ہزار 375 زخمی ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ اس درندگی کے نتیجے میں غزہ کی نوّے فیصد شہری تنصیبات ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں۔
جنگ بندی کے اعلان کے بعد بھی قابض فوج کی خلاف ورزیاں جاری ہیں، جن میں اب تک 89 فلسطینی شہید اور 317 زخمی ہو چکے ہیں۔