مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
فلسطینی محکمہ امور اسیران اور کلب برائے اسیران فلسطین نے اعلان کیا ہے کہ غزہ کے تین اسیران قابض اسرائیل کی جیلوں میں شہید ہو گئے ہیں، جبکہ حماس نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ قابض اسرائیل کو پابند کرے کہ جبری طور پر غائب کیے گئے تمام فلسطینی اسیران کی تقدیر فوری طور پر ظاہر کرے۔
جمعرات کے روز جاری بیان میں دونوں اداروں نے بتایا کہ شہید ہونے والوں میں 60 سالہ شہید تیسیر سعید العبد صبابہ ،44 سالہ خمیس شکری مرعی عاشور اور 35 سالہ خلیل احمد خلیل ہنیہ شامل ہیں۔
بیان کے مطابق شہید صبابہ کے اہل خانہ کو اسرائیلی ادارہ ہموکیڈ نے باضابطہ طور پر آگاہ کیا جس کی بنیاد قابض اسرائیلی فوج کے جواب پر تھی، جبکہ خمیس عاشور اور خلیل ہنیہ کی شہادت کی تصدیق قابض اسرائیل کی جانب سے موصول ہونے والے الگ الگ جوابات کے ذریعے ہوئی۔
معلومات کے مطابق صبابہ 31 دسمبر سنہ2024 کو اپنی گرفتاری کے صرف دو ماہ بعد شہید ہوا۔ خمیس عاشور 8 فروری سنہ2024ء کو گرفتاری کے ایک ہی دن بعد شہید کر دیا گیا، جبکہ خلیل ہنیہ 25 دسمبر سنہ2024ء کو تقریباً ایک برس کی حراست کے بعد شہید ہوا۔
امور اسیران اور کلب برائے اسیران نے بتایا کہ تینوں شہداء اپنے پیچھے خاندان چھوڑ گئے ہیں۔ صبابہ نو بچوں کے باپ تھے، عاشور نے چار بچے چھوڑے اور ہنیہ بھی چار بچوں کے باپ تھے۔
دونوں اداروں نے واضح کیا کہ یہ شہداء ان درجنوں فلسطینی اسیران میں شامل ہیں جو جنگِ نسل کشی کے آغاز سے قابض اسرائیل کی جیلوں میں وحشیانہ تشدد، بھوک پر مبنی سزاؤں، طبی انحرافات، جنسی حملوں، بدترین محرومی اور ذلت آمیز رویوں کے نتیجے میں شہید کیے گئے۔
اپنے بیان میں حماس نے ان شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا اور اس امر پر زور دیا کہ بین الاقوامی سطح پر فوری اقدام اٹھایا جائے تاکہ قابض اسرائیل کو اس بات پر مجبور کیا جا سکے کہ وہ جبری طور پر لاپتہ کیے گئے اسیران کی تقدیر فوراً سامنے لائے، شہداء کے اجساد واپس کرے اور ان تمام بھیانک جرائم کے مرتکب مجرموں کو کٹہرے میں لایا جائے۔
حماس نے اپنے بیان میں کہا کہ قابض اسرائیلی جیلوں کے اندر جو کچھ ہو رہا ہے وہ مصلحتِ اسیران کے انتظامی عملے کی کھلی سفاکیت کو ظاہر کرتا ہے، جس میں منظم تشدد، دانستہ طبی غفلت، بھوک پر مجبور کرنا، جسمانی حملے اور دیگر سنگین خلاف ورزیاں شامل ہیں۔ حراستی ماحول خود اس قدر ظالمانہ ہے کہ انسانی وقار کی صریح توہین بن چکا ہے۔
حماس نے خبردار کیا کہ اسیران کے خلاف جاری منظم تشدد، جان بوجھ کر بھوکا رکھنے، مہلک طبی غفلت، جسمانی اور جنسی حملوں اور دیگر اذلال پر مبنی پالیسیوں کے نتیجے میں ہونے والے جرائم اپنی نوعیت کے اعتبار سے سنگین جنگی جرائم ہیں۔
حماس نے اقوام متحدہ سمیت تمام انسانی حقوق کی تنظیموں اور بین الاقوامی اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کریں اور قابض اسرائیل کے ہاتھوں اسیران کے خلاف ہونے والے جرائم کی بین الاقوامی سطح پر تحقیقات شروع کریں، جن میں میدانی پھانسیوں اور بہیمانہ تشدد کے وہ واقعات بھی شامل ہیں جنہوں نے درجنوں اسیران کی جان لے لی۔
حماس نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ قابض اسرائیل کو ہر ممکن دباؤ ڈال کر مجبور کیا جائے کہ وہ جیلوں میں ہونے والے ان جرائم کو فوری طور پر روکے جن کے ذریعے عالمی قوانین اور انسانی ضابطوں کی توہین کی جا رہی ہے۔
اسیران کے ادارےکے مطابق جنگِ نسل کشی کے آغاز سے اب تک شہید ہونے والے فلسطینی اسیران کی تعداد 100 سے تجاوز کر چکی ہے جن میں 84 شہداء کی شناخت باقاعدہ طور پر ظاہر کی جا چکی ہے۔ ان میں 50 اسیران کا تعلق غزہ سے تھا۔ یوں سنہ1967 سے فلسطینی اسیر تحریک کے معروف شہداء کی مجموعی تعداد بڑھ کر 321 ہو گئی ہے۔
محکمہ امور اسیران اور کلب برائے اسیران نے قابض اسرائیل کو ان شہادتوں کا مکمل ذمہ دار ٹھہرایا اور عالمی انسانی حقوق کے نظام سے اپیل کی کہ وہ قابض ریاست کے رہنماؤں کا احتساب کرے اور امریکہ سمیت ان تمام طاقتوں کی فراہم کردہ کھلی چھوٹ کا خاتمہ کرے جس نے قابض اسرائیل کو نصف صدی سے بھی زائد عرصے تک قانون سے بالاتر رکھا ہے، خصوصاً جنگِ نسل کشی کے آغاز کے بعد اس بے لگام جارحیت نے اپنی انتہا کو چھو لیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اکثریت کو مقدمہ چلائے بغیر مختلف عنوانات کے تحت قید رکھا گیا ہے جن میں ظالمانہ انتظامی حراست اور ان افراد کی درجہ بندی شامل ہے جنہیں قابض اسرائیل غیر شرعی جنگجو قرار دیتا ہے۔ نومبر تک انتظامی حراست میں رکھے گئے فلسطینیوں کی تعداد تقریباً 3368 تھی جبکہ غیر شرعی جنگجو قرار دیے گئے قیدیوں کی تعداد 1205 رہی، اس میں غزہ کے تمام اسیران شامل نہیں۔