غزہ ۔ مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
غزہ میں ہولناک نسل کشی کا ایک پہلو جبری طور پر لاپتا کیے گئے فلسطینی اور شہداء کی مسخ شدہ لاشیں شامل ہیں۔ یہ صرف ایک واقعہ نہیں غزہ کے اُن شہداء کی درد بھری داستان ہے جن کے جسدِ خاکی قابض اسرائیلی فوج کی حراست سے اس عالم میں لوٹے کہ ہر زخم، ہر کچلی ہوئی ہڈی اور ہر چاک کیا ہوا سینہ ظلم کی پوری کہانی بنا ہوا تھا۔ یہ بدن وہ گواہ ہیں جن سے زندگی بھی چھینی گئی اور موت کی حرمت بھی بے رحمی سے تاراج کر دی گئی۔ سفاکیت کا یہ باب انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔
مکمل نہیں، چیختے ہوئے بدن
واپس آنے والے یہ جسدِ خاکی نہ سالم تھے نہ خاموش ،کسی کا سر تن سے جدا تھا، کسی کے ہاتھ پشت پر بندھے تھے، کسی کی آنکھوں پر پٹیاں تھیں۔ کئی کے سینے اس مہارت سے چیرے گئے تھے کہ دل، جگر، گردے اور پھیپھڑے تک نکال لیے گئے۔ کچھ بدن ٹینکوں کے تلے روندے گئے، کچھ کو قریب سے گولیاں مار کر شہید کیا گیا اور کچھ شہداء کے جسم تربیت یافتہ درندہ صفت کتوں کے زخموں سے چھلنی تھے۔
ڈاکٹر غسان ابو ستہ کے لرزہ خیز الفاظ ان بدنوں کی چیخ بن کر گونجتے ہیں کہ “ہمارے بچے ہمیں نامکمل جسدِ خاکی کی صورت لوٹے۔ ان سے زندگی دو مرتبہ چھینی گئی۔ ایک بار تشدد نے ان کی سانسیں چھینیں اور دوسری بار ان کے اعضاء بے رحمی سے نوچ لیے گئے۔
ہر جسدِ خاکی ایک بین الاقوامی تحقیق کا مطالبہ
ڈاکٹر منیر البرش کے مطابق ان میں سے ہر ایک جسدِ خاکی اپنے اندر ایک پوری عالمی تحقیق کا تقاضا رکھتا ہے۔ بعض پر انتہائی پیشہ ورانہ جراحی کے نشانات تھے، جن سے اعضا کی چوری کے شبہ کو تقویت ملتی ہے۔
طبی عملہ ان مناظر کو دیکھ کر سکتے میں آ گیا۔ یہ صرف لاشیں نہیں تھیں، نسل کشی کی کھلی داستانیں تھیں۔
تباہ شدہ فریجوں میں رکھے گئے شہداء
غزہ کے تباہ شدہ طبی نظام کے باعث ان شہداء کو مچھلی رکھنے والے پرانے فریزرز میں رکھا گیا تاکہ اہلِ خانہ انہیں دیکھ کر پہچان سکیں۔ یہ پہچان زخموں سے ہوتی تھی، بکھرے چہروں سے، کچلی ہڈیوں سے۔
یہ پہچان نہیں تھی، یہ ماؤں کے ہاتھوں میں رکھے گئے دل کے آخری دھڑکتے ہوئے ٹکڑے تھے۔
انسانیت کے منہ پر طمانچہ
فوج داری جرائم کی تحقیقاتی کمیٹی کے ترجمان محمود عاشور نے بتایا کہ کئی جسدِ خاکی اس طرح مسخ تھے جیسے ان پر قابض اسرائیلی گاڑیاں چڑھائی گئی ہوں۔
یہ سب شواہد چیخ چیخ کر ثابت کرتے ہیں کہ جنیوا کنونشن کی بدترین خلاف ورزی کی گئی ہے اور ان جرائم کو عالمی فوجداری عدالت تک پہنچانا ناگزیر ہے۔