(مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی ’انروا‘ کے میڈیا مشیر عدنان ابو حسنہ نے انکشاف کیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں اس وقت 16 لاکھ فلسطینی خطرناک اور متعدد سطحوں کی غذائی قلت یا خوراکی عدم تحفظ کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ سنگین صورتحال قابض اسرائیل کی جانب سے موسم سرما کے لیے ضروری انسانی امدادی سامان کی ترسیل میں مسلسل رکاوٹوں کے باعث پیدا ہوئی ہے۔
یہ خطرناک انتباہ ایک شدید موسمی دباؤ کے ساتھ سامنے آیا ہے جو غزہ کی پٹی کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے اور ہزاروں خستہ حال خیموں کو اکھاڑ چکا ہے جبکہ قابض اسرائیل نے غزہ کے دروازوں پر چھ ہزار ٹرک روک رکھے ہیں جن میں سینکڑوں ہزار خیمے کمبل اور غذائی اشیاء موجود ہیں۔
عدنان ابو حسنہ نے الجزیرہ نیٹ سے گفتگو میں کہا کہ موجودہ موسمی دباؤ بے گھر فلسطینیوں کی زندگی پر تباہ کن اور براہ راست اثرات مرتب کر رہا ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ اس موسمی صورتحال کے باعث ہزاروں خیمے اکھڑ گئے ہیں اور بارش اور سیوریج کا پانی وسیع رہائشی علاقوں میں داخل ہو گیا ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ جن ڈھانچوں کو خیمے کہا جا رہا ہے ان میں سے بیشتر پلاسٹک اور کچھ کپڑے کے ٹکڑوں سے عارضی طور پر کھڑے کیے گئے ہیں جو حقیقی معنوں میں خیمے کہلانے کے قابل ہی نہیں اور اپنے مکینوں کو تحفظ فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔
ابو حسنہ نے بتایا کہ حتیٰ کہ حقیقی خیمے بھی بار بار کی جبری نقل مکانی کے باعث بوسیدہ ہو چکے ہیں اور موجودہ طوفانی ہواؤں اور موسلا دھار بارشوں کا مقابلہ نہیں کر پا رہے۔
انروا کے اس عہدیدار نے کہا کہ غزہ کے عوام یہ محسوس کر رہے ہیں کہ جنگ اب بھی جاری ہے مگر مختلف شکلوں اور طریقوں سے۔
انہوں نے مزید کہا کہ انسانی حالات کی مسلسل بگڑتی صورتحال مریضوں کی بڑھتی تعداد اور سینکڑوں اقسام کی غذائی اور غیر غذائی اشیاء نیز سیوریج اور پانی کے اسٹیشنوں کے پرزہ جات طبی آلات اور ادویات کی ترسیل میں رکاوٹیں سب مل کر شہری آبادی کے خلاف جنگ کے تسلسل کی مختلف صورتیں ہیں۔
روکی گئی امداد کے بارے میں ابو حسنہ نے بتایا کہ قابض اسرائیل انروا کو چھ ہزار ٹرک غزہ میں داخل کرنے سے روک رہا ہے جن میں سینکڑوں ہزار خیمے شامل ہیں جنہیں ایجنسی نے سینکڑوں ملین ڈالر میں خریدا تھا اور جن کی اس وقت عوام کو شدید ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان ٹرکوں میں سینکڑوں ہزار کمبل اور موسم سرما کے کپڑے بھی موجود ہیں اس کے علاوہ اتنی غذائی اشیاء بھی ہیں جو غزہ کی پٹی کے لیے تین ماہ تک کافی ہو سکتی ہیں مگر یہ سب سامان غزہ کے دروازوں پر روکا گیا ہے۔
موسمی دباؤ کے جان لیوا اثرات کے حوالے سے بتایا گیا کہ موجودہ لہر کے آغاز سے اب تک تین اموات ریکارڈ کی جا چکی ہیں جن میں تازہ ترین ایک شیر خوار بچے کی ہے جو شدید سردی کے باعث جاں بحق ہوا۔
انروا کی عملی سرگرمیوں کے بارے میں ابو حسنہ نے کہا کہ محدود وسائل کے باوجود ایجنسی ہنگامی بنیادوں پر مداخلت کر رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ انروا کے زیر انتظام پناہ گاہوں میں تقریباً 80 ہزار فلسطینی مقیم ہیں جبکہ ان مراکز کے اطراف بھی سینکڑوں ہزار فلسطینی تحفظ اور مدد کی تلاش میں جمع ہیں۔
انہوں نے کہا کہ غزہ کی پٹی میں انروا کے 12 ہزار اہلکار دن رات سرگرم ہیں جہاں ماحولیاتی صحت اور لاجسٹک سپورٹ کے شعبے چوبیس گھنٹے کام کر رہے ہیں۔
تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک بڑے انسانی زلزلے یا سونامی کے مترادف ہے جو انروا یا تباہ حال بلدیاتی اداروں کی صلاحیتوں سے کہیں بڑھ کر ہے۔
ابو حسنہ نے نشاندہی کی کہ بھاری مشینری پمپنگ اسٹیشن اور متحرک سیوریج یونٹس کی عدم موجودگی انسانی امدادی کارروائیوں میں شدید رکاوٹ بن رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بہت سا ضروری سامان غزہ میں داخل ہی نہیں ہونے دیا جا رہا جس کے باعث انروا یا دیگر اداروں کی مجموعی مداخلت دستیاب وسائل کی شدید کمی کے سبب انتہائی محدود ہو گئی ہے۔
اقوام متحدہ کے اس عہدیدار نے انسانی حالات میں خطرناک اور ڈرامائی بگاڑ سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ انروا نہیں چاہتی کہ حالات دوبارہ صفر کی سطح پر پہنچ جائیں جہاں غزہ کی پٹی میں قحط اور انسانی و طبی خدمات کا مکمل انہدام ہو چکا تھا۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر بارشوں اور موسمی دباؤ کا سلسلہ جاری رہا تو صورتحال مزید بدتر ہو جائے گی بالخصوص اس لیے کہ اصل موسلا دھار بارشیں ابھی آنا باقی ہیں جو جنوری اور فروری میں ہوتی ہیں۔
انہوں نے ماضی کی ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ جب سمندر کی سطح محض نصف میٹر بلند ہوئی تو سینکڑوں خیمے بہہ گئے تھے اور متنبہ کیا کہ اگر ضروری مشینری آلات اور سینکڑوں ہزار خیمے جو سرحدوں پر انتظار کر رہے ہیں غزہ میں داخل نہ کیے گئے تو حالات انتہائی خطرناک حد تک بگڑ سکتے ہیں۔
