Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

پی ایل ایف نیوز

غزہ میں جنگ بندی کے باوجود مشکلات کا سلسلہ جاری

مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
تحریر: ڈاکٹر صابر ابومریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
فلسطینی علاقہ غزہ کی پٹی جو گذشتہ بیس سال سے مسلسل انسانیت کش محاصرہ کا شکار ہے۔ عالمی سطح پر انسانی حقوق کے کارکن غزہ کو کھلی جیل بھی کہتے ہیں۔ غزہ کا نام آتے ہی مصائب اور درد ناک داستان ذہن نشین ہو جاتی ہے۔ دو سال قبل امریکی ایماء اور مسلسل مسلح حمایت سے غاصب صیہونی فوج نے غزہ پر ایک وحشیانہ حملہ شروع کیا تھا جو ابھی تک جاری ہے۔اس حملہ اور نسل کشی کے بعد دو ماہ قبل امریکی صدر ٹرمپ نے ایک ڈرامائی جنگ بندی کا معاہدہ پیش کیا اور اس معاہدے پر کچھ مسلمان ممالک کی حکومتوں نے بھی دستخط کر دئیے تا کہ غزہ میں نسل کشی کا سلسلہ بند ہو سکے۔ ظاہری طور پر جنگ بندی ہو چکی ہے لیکن حقیقی معنوں میں غاصب اسرائیلی افواج مسلسل غزہ میں جارحیت کی مرتکب ہو رہی ہیں۔ ایسی صورتحال میں عالمی مبصرین نے اس جنگ بندی کےمعاہدے کو جعلی جنگ بندی معاہدہ قرار دیا ہے۔
غزہ، جو دنیا کا سب سے زیادہ محاصرے میں جکڑاہوا علاقہ ہے جس نے قحط اور نسل کشی کا سامنا کیا ہے۔ حا ل ہی میں جنگ بندی کےبعد یہ امید کی جا رہی تھی کہ اب غزہ کے لوگوں کو زندگی کی امید ملے گی لیکن امید تو ملی مگر اس امید کے مکمل ہونے میں ابھی بھی متعدد رکاوٹیں موجود ہیں جن میں ایک سب سے بڑی رکاوٹ اسرائیل اور اس کی ہٹ دھرمی اور اس پر امریکی سرپرستی ہے۔

غزہ میں اب موسوم سرما شروع ہو چکا ہے۔غزہ ہر سال سرد موسم کے آغاز کے ساتھ ایک نئے امتحان کا سامنا کرتا ہے۔گذشتہ سال تو اس سرد موسم میں جہاں نسل کشی جاری تھی وہاں غزہ کے مکینوں کو خیموں کی چھت بھی نصیب نہ تھی اور ظلم تو یہاں تک دیکھا گیا کہ معصوم اور ننھے بچے بارش ک ٹھندے پانی اور کیچڑ میں زندگی گذارنے پر مجبور تھے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے حصہ میں کامیابی لکھنے کے لئے جنگ بندی کا معاہدہ تو دے دیا ہے لیکن اس سال کا موسم سرما بھی جنگ کے آثار کی وجہ سے گذشتہ سالوں کی نسبت کم کٹھن نہیں بلکہ زیادہ مشکلات کے ساتھ ہے۔

غزہ کا علاقہ کہ جہاں ایک طرف بمباری، بے گھری اور انسانی بحران نے زندگی کو مفلوج کر رکھا ہے، وہیں دوسری طرف سرد موسم نے فلسطینی عوام کی مشکلات میں وہ شدت پیدا کر دی ہے جس کا تصور بھی مشکل ہے۔ تباہ شدہ مکانات، پناہ گاہوں کی کمی، ایندھن کی قلت، صحت کے بحران، اور خوراک و پانی تک محدود رسائی نے غزہ کے لوگوں کے لیے سردی کو ایک جان لیوا موسم میں بدل دیا ہے۔ غزہ میں جاری جنگ نے لاکھوں افراد کو گھروں سے بے دخل کر دیا ہے۔پورے خاندان کھلے آسمان تلے یا عارضی خیموں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ سرد ہوائیں، بارشیں اور گرتا ہوا درجہ حرارت اُن کے لیے شدید خطرہ بن چکا ہے۔تباہ شدہ عمارتیں، ٹوٹے دروازے اور کھڑکیاں، اور جگہ جگہ ملبے کے ڈھیر موسمِ سرما کے دوران کسی بھی پناہ گاہ کی مؤثر حفاظت نہیں کر پاتے۔ جنگ اور سردی کا یہ امتزاج انسانی بحران کو نئی انتہا تک لے گیا ہے۔دوسری طرف غزہ بھر میں خیمہ بستیوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، لیکن ان خیموں کی حالت انتہائی خستہ ہے۔ عموماً یہ خیمے بارش روکنے کے قابل نہیں، اور ذرا سی ہوا سے پھٹ جاتے ہیں۔کئی خیموں میں شدید سردی میں بھی گرم کپڑے، کمبل یا مناسب بستروں کا انتظام موجود نہیں۔چھوٹے چھوٹے خیموں میں کئی کئی خاندان ٹھنسے ہوئے رہتے ہیں، جس کی وجہ سے نہ صرف بیماریوں کا پھیلاؤ بڑھ جاتا ہے بلکہ پرائیویسی اور انسانی وقار بھی بری طرح متاثر ہوتا ہے۔
غزہ کی موجودہ صورتحال یہ ہے کہ بارش کے دوران خیموں میں پانی بھر جانا، مٹی کا کیچڑ بن جانا، اور بچوں کا بیمار ہو جانا روز کا معمول بن چکا ہے۔ ایسے حالات میں سرد موسم محض تکلیف نہیں بلکہ بقا کا چیلنج بن جاتا ہے۔ایندھن، بجلی اور حرارتی وسائل کی شدید کمی ہے۔اسرائیلی محاصرے کی وجہ سے غزہ میں ایندھن کا داخلہ تقریباً ناممکن ہے، جس کے نتیجے میں لوگ حرارت پیدا کرنے سے محروم ہیں۔بجلی کی بندش، گیس سلنڈروں کی نایابی، لکڑی اور کوئلے کی کمی نے سردی میں معمولاتِ زندگی کو انتہائی خطرناک بنا دیا ہے۔بہت سے خاندان ساحل کی لکڑی، کپڑوں کے ٹکڑے یا کچرا جلانے پر مجبور ہیں، جو نہ صرف ناکافی ہے بلکہ صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔حرارت نہ ہونے کی وجہ سے بچوں، بیماروں اور بزرگوں میں نمونیا، سانس کی بیماریاں، بخار اور انفیکشنز تیزی سے پھیل رہے ہیں۔
غزہ میںجنگ کے دوران صحت کا نظام پہلے ہی تباہ ہو چکا ہے۔غاصب صیہونی فوج نے غزہ کے تمام ہی اسپتالوں کو تباہ و برباد کر دیاہے۔ ہسپتالوں کی بڑی تعداد زمین بوس ہو چکی ہے اورجو باقی ہیں وہ بھی شدید مشکلات کا شکار ہیں۔سرد موسم میںنمونیا کے مریض بڑھ رہے ہیںسانس کی بیماریوں کا پھیلاؤ تیز ہو رہا ہےصاف پانی کی کمی اور سردی کے باعث پیٹ کی بیماریاں بڑھ رہی ہیںزخموں اور انفیکشنز کا علاج نہ ہونے کے باعث کئی اموات ہو رہی ہیںادویات، سیرنجز، آکسیجن سلنڈرز، ویکسین اور گرم کمبلوں کی شدید کمی ہے۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق سردی اور بیماریوں کا یہ بحران جنگ کے نقصانات کو مزید خطرناک بنا رہا ہے۔
سردی میں انسانی جسم کو زیادہ توانائی اور خوراک کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن غزہ میں خوراک کی رسائی پہلے ہی محدود ہے۔بیشتر خاندانوں کو دن میں ایک وقت کا کھانا بھی مشکل سے ملتا ہے، جبکہ گرم خوراک تو واقعاً نایاب ہے۔پانی کی قلت نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔بارش کے پانی کو جمع کرنا بھی خیمہ بستیوں کے لیے آسان نہیں، اور سرد موسم میں گندا یا آلودہ پانی پینا بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔بچوں میں غذائی قلت (malnutrition) تیزی سے بڑھ رہی ہے۔سب سے زیادہ متاثر: بچے، عورتیں اور بزرگ سرد موسم کا سب سے زیادہ اثر کمزور طبقات پر پڑتا ہے۔بچےمناسب لباس کی کمی گیلے خیموں میں رہائش ،سردی کے باعث خطرناک بیماریاںنفسیاتی صدمے، خوف، بے چینی، صفائی کے مسائل ،حاملہ خواتین کے لیے خطرات ،بچوں کی دیکھ بھال میں مشکلا ت،بزرگ افراد کے لئے جسمانی کمزوری کے باعث سرد موسم سہنا مشکل ،یہ تمام طبقات انسانی مدد کے شدید منتظر ہیں۔
ایسی صورتحال میں غزہ کے لوگو ں کو بلا رکاوٹ امداد کی ضرورت ہے ۔اقوام متحدہ اور امدادی تنظیموں کے مطابق سرد موسم کے باوجود امداد کی رسائی انتہائی کم ہے۔ہر گھنٹے کی تاخیر غزہ میں انسانی جانوں کا نقصان بڑھا رہی ہے۔محاصرہ، بمباری، سڑکوں کی تباہی اور سیاسی رکاوٹیں امداد پہنچنے میں سب سے بڑی وجہ ہیں۔اسرائیل نے معاہدے کے باوجود رفح کراسنگ کو امدادی سرگرمیوں کے لئے مکمل طور پر فعال نہیں ہونے دیا ہے۔ان حالات میں سردی غزہ کے نہتے عوام کے لیے ایک خاموش قاتل کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
ان تمام تر شدید مشکلات کے باوجود فلسطینی عوام ہمت، حوصلے اور یکجہتی کی مثال قائم کیے ہوئے ہیں۔ایک دوسرے کی مدد کرنا، محدود وسائل کا مشترکہ استعمال، اور حالات کا مقابلہ کرنا اُن کے اجتماعی شعور کی علامت ہے۔یہی استقامت انہیں سردی اور جنگ کے اس دوہرے عذاب کے خلاف کھڑا رکھے ہوئے ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ غزہ میں سرد موسم صرف موسمی تبدیلی نہیں بلکہ ایک انسانی المیہ ہے جو جنگ، محاصرے اور غربت کے ساتھ مل کر بے شمار جانوں کے لیے شدید خطرہ ہے۔یہ صورت حال عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے اور فوری عملی اقدامات کا تقاضا کرتی ہے۔پناہ گاہوں کی فراہمی، حرارتی وسائل، خوراک، ادویات، کمبل، صاف پانی اور محفوظ ماحول کے بغیر غزہ میں سردی کا مقابلہ کرنا ناممکن ہے۔فلسطینی عوام اس موسم میں صرف موسمی سردی نہیں سہہ رہے بلکہ عالمی بے حسی کی ٹھنڈ بھی برداشت کر رہے ہیں۔انسانیت کا تقاضہ ہے کہ عالمی برادری اور مسلم دنیا فوری طور پر غزہ کے عوام کی مدد کے لیے متحد ہو اور سرد موسم کے اس بحران کو کم کرنے کے لیے مؤثر قدم اٹھائے۔عالمی برادری سمیت ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے غزہ کے لئے بڑھ چڑھ کر امداد کو یقینی بنائیں تا کہ اس المیہ اور بحران کا مقابلہ کیا جائے۔ یہ ہم سب کی انسانی، اخلاقی، دینی و سیاسی ذمہ داری ہے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan