Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

صیہونیزم

غزہ میں انسانی المیہ، اسرائیلی بلڈوزر نے بچے کو روند کر شہید کردیا

مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن

یورومینڈیٹری برائے حقوق انسانی نے بتایا ہے کہ قابض اسرائیل کے ایک فوجی بلڈوزر نے جان بوجھ کر غزہ میں ایک فلسطینی زخمی بچے کو روند دیا، جس کے نتیجے میں اس کا جسم دو حصوں میں تقسیم ہو گیا، جبکہ وہ زندہ تھا۔ واقعہ اس وقت پیش آیا جب بچے پر فائرنگ کی گئی اور اسے طبی امداد سے محروم رکھا گیا، جو ایک انتہائی ظالمانہ قتل تھا اور یہ واضح کرتا ہے کہ قابض فوج شہری فلسطینیوں کو بطور قومی گروہ نشانہ بنا رہی ہے تاکہ غزہ میں نسل کشی کی جارحیت کو جاری رکھا جا سکے۔

یورومینڈیٹری نے اپنے بیان میں بتایا کہ غزہ کے شمال میں واقع جبالیہ کیمپ میں 16 سالہ زاہر ناصر شامیہ پر قابض فوج نے فائرنگ کی۔ زخمی ہونے کے بعد اس کا خون بہتا رہا لیکن علاقے میں مسلسل فائرنگ کے باعث کوئی اس تک پہنچ نہیں سکا۔ چند منٹ بعد ایک فوجی بلڈوزر وہاں پہنچا اور بچے کو زندہ حالت میں روند دیا، جس کے نتیجے میں اس کا جسم ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔

بچے کے چچا نے یورومینڈیٹری ٹیم کو بتایا کہ شامیہ جبالیہ کے ’’ جبالیہ سروسزکلب‘‘ کے قریب موجود تھا، جو کہ خطِ صفر سے تقریباً پچاس میٹر دور ہے، کہ قابض فوج کی گاڑیاں تقریباً صبح نو بجے وہاں پہنچی تھیں، شدید فائرنگ کے دوران۔ شامیہ اسی علاقے میں رہ رہا تھا جب اس کا ایک دوست آیا اور بتایا کہ فوج نے خط صفر چھوڑ دیا، جس پر شامیہ اور اس کے دوست مکعب زرد کے علاقے کی طرف گئے۔ راستے میں قابض فوج نے اس پر فائرنگ کی، غالباً ایک ڈرون طیارے سے ان پر فائرنگ کی گئی تھی۔ وہ سر میں گولی لگنے کے باوجود حرکت کرتا رہا۔ اس کے دوست وہاں سے بھاگ گئے اور شامیہ زمین پر پڑا رہا۔

بچے کے چچا نے مزید بتایا کہ بعد میں فوج نے سموک بم پھینکے اور شامیہ کے مقام پر پہنچ گئی، وہاں سے فوجی اترے، بلڈوزر آگے بڑھے اور زاہر کے جسم کو زمین پر پڑے ہوئے روند کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ بعد میں دوستوں نے اس کے اجزاء جمع کر کے الشفاء ہسپتال منتقل کیے۔

یورومینڈیٹری نے کہا کہ قابض فوج کا فلسطینیوں کو زندہ یا زخمی حالت میں ٹینک اور بلڈوزروں سے روندنا کوئی منفرد واقعہ نہیں، بلکہ یہ گذشتہ دو سالوں سے جان بوجھ کر کیے جانے والے قتل کے سب سے ظالمانہ نمونوں میں سے ایک ہے، جس کا مقصد فلسطینیوں کی انسانیت کو ختم کرنا اور انہیں جسمانی و نفسیاتی طور پر خوفزدہ کرنا ہے۔ یہ عمل غزہ میں جاری نسل کشی کا حصہ ہے، جس میں فلسطینی عوام کو مجموعی طور پر ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

بیان میں مزید بتایا گیا کہ قابض اسرائیل نے سنہ 2024ء اور 2023ء میں متعدد واقعات میں اسی طرح کے اقدامات کیے، جن میں افراد، خاندان، اور یہاں تک کہ بچوں کو بھی بلڈوزروں یا ٹینکوں کے ذریعے روند کر قتل کیا گیا۔ مثال کے طور پر، 29 فروری سنہ 2024ء میں 62 سالہ جمال حمدی حسن عاشور کو بلڈوزر نے روند کر شہید کیا، 27 جون سنہ 2024ء میں شجاعیہ میں ایک خاندان کے افراد کو زخمی کر کے ٹینک کے ذریعے ماں صفیہ حسن موسى الجمال کو شہید کیا گیا، 16 دسمبر سنہ 2023ء کو بے گھر افراد کو ان کے خیموں میں روند کر مارا گیا۔

یورومینڈیٹری نے کہا کہ یہ واقعات اتفاقی نہیں، بلکہ قابض فوج کی منظم پالیسی کا حصہ ہیں جس کا مقصد فلسطینیوں کی انسانیت چھیننا اور انہیں شدید تشدد کے حالات میں ڈالنا ہے۔ قتل اور زخمی کرنے کے یہ طریقے غزہ میں جاری نسل کشی کی واضح مثال ہیں، جس میں نہ صرف شہری بلکہ بےگھر اور بچے بھی نشانہ بنائے جا رہے ہیں۔

یورومینڈیٹری نے بین الاقوامی عدالت کے دفتر سے مطالبہ کیا کہ وہ ان جرائم کی تحقیقات کو ترجیحی حیثیت دیں، بشمول بچوں، زخمیوں، اور نازحین کے قتل، اور ذمہ داران کی نشاندہی کریں، چاہے ان کی قومیت یا عہدہ کچھ بھی ہو۔

اس کے علاوہ، عالمی برادری اور وہ ممالک جو عالمی دائرہ اختیار کے تحت اقدامات کر سکتے ہیں، سے کہا گیا ہے کہ وہ فوری اقدامات اٹھائیں تاکہ غزہ میں جاری نسل کشی روکی جا سکے، جس میں قابض اسرائیل کو ہتھیار اور عسکری مدد فراہم کرنے کو بند کرنا اور سیاسی و سکیورٹی تعاون کا جائزہ لینا شامل ہے، تاکہ فلسطینیوں کی جان و مال کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan