غزہ ۔ مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
غزہ پر مسلسل جاری جارحیت اور محاصرہ اپنے اندر ایک ایسی سنگین صہیونی پالیسی کو بے نقاب کر رہا ہے جو آنے والی پوری نسل کی صحت اور نشوونما کو نشانہ بنا رہی ہے۔
نوزائیدہ بچوں کو بنیادی ادویات جیسے فولیِک ایسڈ اور وہ تمام مقویات جو جنین کی صحیح نشوونما کے لیے ضروری ہیں فراہم نہ کرنا اور پروٹین، گوشت، انڈے، دودھ اور پنیر جیسی کامل غذاؤں کی غزہ میں رسائی روک دینا، اس سفاک منصوبے کا حصہ ہے جس کا مقصد منظم قحط کا نفاذ اور ایک ایسے بیمار و کمزور فلسطینی نسل کی تیاری ہے جو طویل المدت جسمانی کمزوریوں اور پیدائشی مسائل کا شکار ہو۔
ٹھوس اعداد و شمار
غزہ میں ہسپتالوں کے ڈائریکٹر جنرل منیر البرش کا کہنا ہے کہ نوزائیدہ بچوں کی صحت ایک ایسے مقام پر پہنچ چکی ہے جسے وہ “ڈھانچا جاتی تباہی” قرار دیتے ہیں۔ حمل کے دوران ماؤں کو لازمی ادویات کی تقریباً مکمل عدم فراہمی، بالخصوص فولیِک ایسڈ اور جنین کی نشوونما کے اہم مقویات کی نایابی، اس تباہی کی بنیادی وجہ ہے۔
انہوں نے مرکزاطلاعات فلسطین سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ یہ کوئی وقتی خلل نہیں بلکہ ایک سوچا سمجھا قابض اسرائیل کا محاصرہ ہے جو حمل کے ابتدائی مراحل کو خاص طور پر نشانہ بناتا ہے۔
البرش کے مطابق ایک سال سے کم عمر کے تقریباً 82 فیصد بچے مختلف درجے کی خطرناک خون کی کمی کا شکار ہیں، جو اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ ماؤں کی خوراک میں ضروری آئرن، پروٹین اور وٹامنز کی قلت نے بچوں کی صحت کو ابتدا ہی سے شدید نقصان پہنچایا۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ جنگ اور صحت کے اس بحران نے ان بچوں کی پیدائش میں خوفناک اضافہ کر دیا ہے جو مختلف پیدائشی معذوریوں کے ساتھ دنیا میں آتے ہیں۔
وزارت صحت کے مطابق گذشتہ برس غزہ میں 1200 سے 1500 کے درمیان ایسے بچے پیدا ہوئے جن میں پیدائشی نقائص پائے گئے، جو دماغ و اعصاب، ریڑھ کی ہڈی، پیشاب کی نالی اور دل سے متعلق سنگین مسائل شامل ہیں۔ یہ شرح کئی دہائیوں بعد سب سے زیادہ ہے۔
البرش نے واضح کیا کہ بیشتر پیدائشی نقائص حمل کے ابتدائی ہفتوں میں فولیِک ایسڈ کی کمی کے سبب سامنے آتے ہیں جب بچے کا اعصابی نالی نظام بنتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ قابض اسرائیل نے مہینوں تک یہ ادویات “کالی فہرست” میں رکھ کر غزہ میں داخل ہونے سے روکے رکھا۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ قابض اسرائیل صرف ادویات ہی نہیں بلکہ حاملہ خواتین کی بنیادی خوراک جیسے دودھ، انڈے اور گوشت بھی داخل نہیں ہونے دیتا، جس سے جنین کی ساخت پہلی سانس سے پہلے ہی کمزور ہو جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ دوہرا محاصرہ قبل از وقت پیدائش اور نامکمل نشوونما والے بچوں کی تعداد تشویشناک حد تک بڑھا رہا ہے۔
غزہ کے ہسپتالوں میں اب بڑی تعداد میں ایسے بچے پیدا ہو رہے ہیں جن کا وزن دو کلوگرام سے بھی کم ہوتا ہے، جو انہیں سنگین بیماریوں اور پہلے مہینے میں موت کے بڑھتے ہوئے خطرے سے دوچار کرتا ہے۔
البرش کا کہنا ہے کہ اب یہ نقائص چند انفرادی کیسز نہیں رہے بلکہ “خوفناک سماجی رجحان” کی شکل اختیار کر چکے ہیں جو ماؤں کی صحت کو جڑوں سے نشانہ بنانے والی صہیونی پالیسی کا نتیجہ ہے۔ آج یہ شرح جنگ سے پہلے کے مقابلے میں چھ گنا زیادہ ہو چکی ہے۔
ان کے مطابق یہ صورتحال فلسطینی بچوں کی حیاتیاتی سطح پر براہ راست ٹارگٹنگ ہے۔ انہیں پیدا ہونے سے پہلے ہی ادویات اور خوراک سے محروم کر کے ایک بیمار نسل تیار کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا: “یہ صرف جنگ کا نتیجہ نہیں بلکہ جینیاتی اور صحت کے شعبے میں پوری فلسطینی قوم کے خلاف ایک سنگین جرم ہے۔”
بھوک کی انجینئرنگ
ناصر میڈیکل کمپلیکس کے بچوں کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر احمد الفرا نے کہا کہ قابض اسرائیل ایک منظم غذائی انجینئرنگ کے ذریعے بچوں کی صحت کو تباہ کر رہا ہے۔
انہوں نے مرکزاطلاعات فلسطین سے گفتگو میں کہا کہ غزہ کے بچوں کو درپیش بحران محض غذائی قلت نہیں بلکہ ایک منصوبہ بند قحط ہے۔ قابض اسرائیل ثانوی اشیا کو داخل ہونے دیتا ہے مگر وہ تمام بنیادی غذائیں روکی جا رہی ہیں جو بچے کی نشوونما کے لئے ناگزیر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قابض اسرائیل غزہ کی غذائی ٹوکری کو باریک بینی سے کنٹرول کرتا ہے۔ وہ غیر مؤثر اشیا کو داخل ہونے دیتا ہے مگر حیاتیاتی پروٹین اور لبنیات جو بچے کے اعصابی اور عضلاتی نظام کی بنیاد ہیں داخل نہیں ہونے دیتا۔
ڈاکٹر الفرا کے مطابق اس پابندی نے بچوں میں شدید غذائی قلت کو جنم دیا ہے جو ان کی ابتدائی زندگی کے مہینوں میں ہی تباہ کن اثرات مرتب کر رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ نوزائیدہ بچوں کے لئے خصوصی دودھ اور اہم وٹامنز کی عدم دستیابی نے ہزاروں بچوں کی زندگی کو خطرے میں ڈال دیا ہے، جس کے ساتھ ہسپتالوں میں کمزوری، نشوونما کی ناکامی اور ہڈیوں کے ٹیڑھے پن کے کیسز بڑھ رہے ہیں۔
ان کے مطابق قابض اسرائیل انتہائی درستگی سے انہی غذاؤں کو روکتا ہے جو بچے کے ذہن و جسم کی نشوونما میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ راست اقدام فلسطینی بچوں کے مستقبل پر حملہ ہے۔
ڈاکٹر الفرا نے بتایا کہ جنوبی غزہ کے ہسپتالوں میں ایسے بچوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جو جسمانی اور لسانی نشوونما میں شدید تاخیر کا شکار ہیں، کیونکہ انہیں وہ پروٹین اور چکنائیاں نہیں ملتیں جو دماغ کی خوراک ہیں۔
انہوں نے کہا: “آج ایک پوری نسل منظم طبی تباہ کاری کا سامنا کر رہی ہے۔ جن بچوں کو آج ان کی خوراک سے محروم رکھا جا رہا ہے، وہ کل کبھی اپنی نشوونما پوری نہیں کر سکیں گے۔ جنگ کا یہ سب سے ہولناک مرحلہ ہے جب حملہ گھروں سے نکل کر بچوں کے خون، جسم اور دماغ تک پہنچ جاتا ہے”۔
آخر میں یہ حقیقت واضح ہے کہ پیدائشی نقائص میں اضافہ کوئی عارضی طبی اعداد و شمار نہیں بلکہ ایک خطرے کی گھنٹی ہے۔ ایک طویل جنگ نے جسم و جان دونوں کو نشانہ بنایا ہے۔
اور جب تک محاصرہ، ادویات کی قلت، تشخیصی سہولیات کی کمی اور صحت کے بنیادی معیار کا فقدان برقرار ہے، ہزاروں حاملہ خواتین اور بچے موت کے دہانے پر کھڑے رہیں گے۔
سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ آخر کب تک غزہ کے معصوم بچے ایسے مقدر کے حوالے رہیں گے جو انہوں نے خود نہیں چنا، اور آنے والی نسلیں اس صہیونی نسل کشی کی قیمت چکاتی رہیں گی جس نے ماؤں کے پیٹ میں پلنے والے بچوں تک کو نہیں بخشا؟