وزیراعظم اسماعیل ھنیہ کی سربراہی میں غزہ کی پٹی کی آئینی فلسطینی حکومت نے اسرائیل کی جانب سے ممنوعہ اور اجازت شدہ اشیاء کی فہرست کے اعلان کو ’’اہل غزہ کا محاصرہ منظم کرنے کی کوشش‘‘ قرار دیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ ہمارا مطالبہ محاصرہ کی تنظیم نہیں بلکہ مکمل اختتام ہے۔ غزہ کی آئینی فلسطینی حکومت نے اپنے ہفتہ وار اجلاس کے بعد عرب دنیا کی تمام قیادت اور وزراء سے غزہ کی پٹی کے دورے کا مطالبہ بھی کیا۔ دوسری جانب حکومت نے مقبوضہ بیت المقدس کو یہودی رنگ میں رنگنے کی اسرائیلی مذموم کارروائیوں بالخصوص فلسطینی اراکین پارلیمان کی القدس سے بے دخلی کے صہیونی فیصلے کی شدید مذمت کی ہے اور اسے القدس کے خلاف گہری سازش قرار دیا ہے۔ حکومت نے کہا کہ شہریوں کو اپنے شہر سے باہر نکالنے کا کوئی قانونی جواز موجود نہیں، یہ فیصلہ قابل مذمت ہے کیونکہ کسی بھی شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے علاقے میں پوری آزادی کے ساتھ رہے۔ حکومت نے اسرائیل سے براہ راست مزاکرات کے لیے سلام فیاض کی نیتن یاھو سے ملاقات کو ذلت آمیز رجوع قرار دیا جس سے فتح کی جانب سے صہیونی حکومت سے براہ راست مزاکرات کی عدم بحالی کے دعوے بھی جھوٹے قرار پا گئے ہیں۔ حکومتی بیان میں کہا گیا کہ ان دونوں کی ملاقات ایسے وقت میں کی گئی جس نے نیتن یاھو کو تحفظ فراہم کیا۔ فلسطین کی آئینی حکومت کا کہنا تھا کہ وہ نیتن یاھو ۔ اوباما ملاقات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ یہ ملاقات مزاکرات کے نام پر فلسطینی قوم کو دھوکہ دینے کے لیے کی گئی ہے۔ ان مزاکرات کے ذریعے فلسطینی قوم کے ہاتھ تو کچھ نہیں آئے گا الٹا اسرائیل کو فلسطینی قوم پر کیے گئے جرائم پر معافی مل جائے گی۔ حکومت کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ اسرائیل سے مزاکرات بالواسطہ ہوں یا براہ راست فلسطینیوں کے حقوق کے لیے بے سود ہیں۔ لہذا سکیورٹی تعاون کے نام پر صہیونی دشمنوں سے ہر طرح کی ملاقاتیں ختم کر دینی چاہیں۔ حکومت نے کہا کہ فیاض اور باراک کی ملاقات سے غزہ کی پٹی کے محاصرے میں شدت اور فلسطینی مزاحمت کے خلاف سازشوں کی تکمیل کی گئی ہے۔ بیان میں فلسطینی غیر آئینی صدر محمود عباس کی جانب سے مغربی کنارے میں عسکری مزاحمت کے متعلق بیانات کی بھی مذمت کی گئی۔