’’الجزیرہ‘‘ چینل کے تازہ انکشاف کے مطابق برطانیہ نے 2003 اور 2004 میں فلسطینی مزاحمتی دھڑوں ’’حماس‘‘ اور ’’جہاد اسلامی‘‘ کی قیادت کو گرفتار کرنے اور غزہ سے میزائل حملے اور فدائی کارروائیوں کو روکنے کیلئے’’فتح‘‘ اتھارٹی اور اسرائیل کے مشترکہ آپریشن کے دو منصوبے تشکیل دیے تھے۔ منصوبے میں تجویز دی گئی کہ غزہ سے داغے جانے والے میزائل حملوں کے متعلق خفیہ معلومات کے حصول کے لیے ایک خصوصی یونٹ قائم کیا جائے اور یہ معلومات روزانہ کی بنیاد پر فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیلی فوج کے مشترکہ آپریشن روم کو مہیا کی جائیں، یہ یونٹ دھماکہ خیز مواد کو ناکارہ بنانے کے لیے ہمہ وقت تیار ہو اور جہاں بھی ’’القسام‘‘ طرز کے میزائلوں کی موجودگی کا علم ہوا یونٹ کے تربیت یافتہ اہلکار اس کو فی الفور ناکارہ بنا دیں۔ اسی طرح غزہ کے جن علاقوں سے زیادہ میزائل داغے جاتے ہیں وہاں پر قومی سکیورٹی کے تفتیشی مراکز کو ترقی دی جائے اور ان علاقوں میں داخل ہونے والی ہر گاڑی کی تلاشی لی جائے۔ پہلے منصوبے کے مطابق برطانوی خفیہ ایجنسی نے 2003ء میں یورپی یونین کی امداد سے فلسطینی سکیورٹی فورسز کے ساتھ تعاون کا ایک منصوبہ تشکیل دیا تھا۔ اس سکیورٹی روڈ میپ کے پہلے مرحلے میں سکیورٹی ضروریات پوری کرنے کے لیے فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ بھرپور تعاون کیا جانا تھا۔ اس منصوبے کو ’’انقلابی گروپوں کی استعداد میں کمی‘‘ کا نام دیا گیا تھا، انہیں گروپوں میں ’’فتح‘‘ کے عسکری ونگ شہداء اقصی بریگیڈ بھی شامل تھا، ان تمام گروپوں کی متوسط قیادت پر پابندیوں کے ساتھ ساتھ حماس اور جہاد اسلامی جیسے مزاحمتی گروپوں کی اعلی قیادت کو عارضی طور پر گرفتار کرنے کی تجویز بھی دی گئی تھی۔ منصوبے میں تمام مزاحمتی دھڑوں کی قیادت کے روابط اور فیصلہ سازی پر پابندی عائد کرنے کے ساتھ ان کے اسلحے اور دولت پر قبضہ بھی کیا جانا تھا۔ منصوبے کے مطابق ان کارروائیوں سے خطے میں امن کی شاہراہ پر گامزن ہونے کے لیے امریکی اور اسرائیلی شرائط پر عرصہ قلیل میں عمل اور سکیورٹی بڑھانے کی برطانوی تجاویز پر بیک وقت عمل میں مثبت پیش رفت ہو گی۔ منصوبے کے مطابق برطانیہ فلسطینی اتھارٹی کی قیادت کے منتخب افراد کے ساتھ مل کر سکیورٹی کریک ڈاؤن کی تیاری کرے گا، برطانیہ اور امریکا فلسطینی اتھارٹی کے سکیورٹی اقدامات کا جائزہ لیں گے اور اسرائیل سے ان اقدامات کے نتائج کی بابت پوچھیں گے۔ منصوبے کے مطابق امریکا اور برطانیہ کے غیر سرکاری مشاہدہ کار فلسطینی حکومت کی سکیورٹی انتظامات پر اسرائیل اور ’’گروپ چار‘‘ کے لیے رپورٹیں بھی مرتب کریں گے۔ برطانیہ کی جانب سے دوسرا خفیہ منصوبہ سنہ 2004ء میں تشکیل دیا گیا تھا جس میں فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے ’’سکیورٹی صورتحال میں بہتری‘‘ اور ’’فدائی حملوںمیں کمی‘‘ کی تحقیقات کی جانی تھیں۔ اس پلان کے مطابق رام اللہ میں فدائی حملہ کاروں کے فالو اپ کے لیے چوبیس گھنٹے کام کرنے والے ایک آپریشن روم کی تشکیل کے ساتھ عوام کے لیے رابطہ کرنے کے لیے ٹیلی فون ہاٹ لائن کے اعلان کی تجویز دی گئی تھی، منصوبے کے مطابق فلسطینی اتھارٹی کسی بھی فدائی حملے کی معلومات ملنے کی صورت میں فوری طور پر اسرائیل کو خطرے کی موجودگی کی اطلاع فراہم کریگی۔ منصوبے میں حماس اور جہاد اسلامی کے عسکری ونگز کو اسلحے سے محروم کرنے کے لیے تین ماہ کی مہم شروع کرنے کا بھی کہا گیا تھا۔ ان دو برطانوی خفیہ پلانز کے علاوہ قطر کے ٹی وی چینل ’’الجزیرہ‘‘ نے برطانوی فوج کے دو مزید منصوبوں کے بارے میں بھی معلومات افشا کی ہیں۔ ان میں سے ایک دو مئی 2005ء جبکہ دوسرا 18 مارچ 2005 کو تشکیل دیا گیا، ان منصوبوں کے مطابق القدس میں برطانوی فوج کا رابطہ آفس تیار کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔ دستاویز میں فلسطینی سکیورٹی فورسز کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے کے متعدد پروجیکٹس سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔ ان منصوبوں میں اسلحہ خریداری اور فورسز کی تربیت جیسے امور کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔