فلسطینی ماہرین نفسیات اور ماہرین تعلیم نے غزہ کی پٹی میں سنہ 2008ء کے آخر میں کئے گئے اسرائیلی حملے کے منفی نتائج کے بیس ماہ بعد جاری رہنے پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے. مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق فلسطینی ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی مسلط کردہ جنگ کے باعث بچوں پر سب سے زیادہ منفی اثرات مرتب ہوئے تھے اور بچوں کی بڑی تعداد ذہنی اور نفسیاتی طور پربری طرح متاثر ہوئی تھی. حکومت اور رفاعی اداروں کی طرف سے بچوں میں جنگ کے مہلک اثرات کو کم کرنے اور انہیں معمول کی زندگی گزارنے کے لیے کی جانے والی کوششوں کے باوجود بچوں میں جنگ کے تباہ کن اثرات کو کم نہیں کیا جا سکا. بیشتر بچے اب نفیساتی طور پر بری طرح متاثر ہیں اور وہ نارمل زندگی گذارنے کی پوزیشن میں نہیں. فلسطینی ماہرین نے انسانی حقوق کی تنظیموں بالخصوص بچوں کی بہبود کے لیے کام کرنے والے اداروں سے اپیل کی ہے کہ وہ جنگ زدہ بچوں بالخصوص ذہنی ، جسمانی اور نفسیاتی طور پر متاثرہ بچوں کی بحالی کے لیے بڑھ چڑھ کر کوششیں کریں. القدس اوپن یونیورسٹی کے استاد اور بچوں کی نفسیاتی امور کے ماہر ڈاکٹر سھیل الدیاب کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے ایک منظم منصوبے کے تحت غزہ کی پٹی کے بچوں کو زیور تعلیم سے محروم کرنے اور انہیں نفسیاتی مریض بنانے کی پالیسی اپنا رکھی ہے. انہوں نے کہا کہ اسرائیل فلسطینی نئی نسل کو جاہل اور ناخواندہ رکھنا چاہتا ہے تاکہ فلسطینیوں میں شعور اور آگاہی کا فقدان رہے اور وہ اسرئیل کے خلاف اپنے حقوق کی جنگ نہ لڑ سکیں.