Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

پی ایل ایف نیوز

غزہ جنگ بندی کا دوسرا مرحلہ

تحریر : ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) غزہ جنگ بندی کے معاہدے کا پہلا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے اس عنوان سے عالمی ذرائع ابلاغ پر خبریں نشر ہو رہی ہیں۔ البتہ اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے مطابق اب بھی ایک صیہونی قیدی حماس کے پاس ہے جبکہ حماس اس بارے میں پہلے ہی تردید کر چکی ہےاور بتا چکی ہے کہ صیہونی قیدی جس کا تعلق اسرائیلی پولیس سے تھا وہ غزہ میں اسرائیل کی بمباری کے نتیجہ میں ہلاک ہو چکا ہے اور غزہ پر شدید بمباری کی وجہ سے اس کی باقیات کو تلاش کرنا بھی ممکن نہیں رہا ہے۔
غزہ جنگ بندی کے پہلے مرحلہ میں حماس نے تمام 30صیہونی قیدیوں کو غاصب اسرائیل کے حوالے کرنے پر رضا مندی ظاہر کی تھی جس کے عوض تقریبا 1700سے 2000فلسطینی قیدیوں کی رہائی ہونا طے پائی تھی، ان فلسطینی قیدیوں میں خواتین، بچے اور جوانوں کی بڑی تعداد شامل تھی۔ بہر حال پہلا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے لیکن اس مرحلہ کے آغاز سے اختتام تک غاصب صیہونی افواج نے مسلسل معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے اور غزہ میںبمباری جاری رکھی اور یہاں تک کہ حما س کے ایک رہنما کو بھی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا کر قتل کیا۔ خلاصہ یہ رہاہے کہ اسرائیل کسی بھی جنگ بندی معاہدے کی پاسداری نہیں کرتا ہے بلکہ ہمیش عالمی قوانین کے ساتھ ساتھ معاہدوں اور قراردادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتا ہے۔
اب جیسا کہ بتایا جا رہاہے کہ غزہ جنگ بندی کا پہلا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے تو ابدوسرے مرحلہ کی بات ہو رہی ہے۔ غزہ جنگ بندی کے دوسرے مرحلہ میں امریکی صدر ٹرمپ کی پیش کردہ شرائط اور نقاط کے مطابق غزہ میں ایسے علاقے جہاں اسرائیلی افواج نے کنٹرول حاصل کیا ہے وہاں سے اسرائیلی افواج کا انخلاء کیا جائے گا اور اس کے عوض حماس کو غیر مسلح ہونا ہو گا۔ واضح رہے کہ اس معاہدے کے پہلے روز سے ہی حماس اور تمام فلسطینی دھڑوں نے غیر مسلح ہونے والے نقطہ کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ البتہ حما س کی قیادت کے ایسے بیانات میڈیا پر آئے تھے جن میں یہ کہا گیا تھا کہ اگر حماس کو غیر مسلح ہونا ہوا تو حماس آزاد فلسطینی ریاست کے فوج کے سامنے اپنا اسلحہ رکھےگی۔دوسری طرف امریکہ اور اسرائیل کے سیاسی ماہرین بھی اپنے تجزیات میںبیان کرتے آئے ہیں کہ حماس کا غیر مسلح ہونا اتنا آسان کام نہیں ہے جس طرح ٹرمپ سمجھ رہے ہیں کیونکہ حماس کبھی بھی امریکہ اور اسرائیل کے سامنے اپنا اسلحہ نہیں رکھے گی۔
حالیہ دنوں میں یہ بحث اب شدت اختیار کر رہی ہے کیونکہ اسی دوسرے مرحلہ میں اسرائیلی افواج کے انخلاء اور حما س کے غیر مسلح ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اور اہم نقطہ مشروط ہے وہ یہ ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کی خواہش پر مسلمان ممالک کی افواج عالمی استحکام فورس کے عنوان سے غزہ میں تعینات ہو جائیں گی جس کے بارے میں نیتن یاہو نے بھی اس شرطپر قبول کیا ہے کہ ترکی کی افواج غزہ نہیں آئیں گی باقی کسی بھی مسلمان ممالک کی افواج غزہ آسکتی ہے۔اس معاملہ میں جہاں انڈونیشیا، سعودی عرب، مصر، اردن، ترکی اور آذربائیجان کی افواج کی بات چل رہی ہے وہاں پاکستان کی افواج کو بھی غزہ میںتعینات کرنے کی بات ہو رہی ہے۔
پاکستان میں اس معاملہ پر بحث جاری ہے ۔کئی ایک مرتبہ حکومتی وزراء نے وضاحتیں پیش کی ہیں لیکن یہ سب اس لئے نا مکمل ہے کیونکہ فوج بھیجنے کا فیصلہ کسی ایک ادارے یا حکومت کا نہیں ہے بلکہ اس بارے میں پارلیمنٹ کی رائے نہیں لی گئی یعنی پاکستان کے عوام اس معاملہ پر شدید نالاں ہیں۔دوسری طرف جیسا کہ ترک افواج کو اسرائیل نے قبول کرنے سے انکار کیا ہے اور ساتھ ساتھ مصر اور انڈونیشاء نے بھی غزہ میں فوج تعینات کرنے سے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیا ہے۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق آذربائیجان جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات رکھتا ہے اس نے بھی غزہ میں فوج تعیناتی پر معذرت کی ہے اور کہاہے کہ فوج کی کمی کے باعث آذربائیجان اپنی فوج غزہ نہیں بھیجے گا۔اب صرف پاکستان اور اردن سمت سعودی عرب کی فوجوں کی بات رہ گئی ہے۔
واضح رہے کہ نومبر میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے غزہ میں قیامِِ امن کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کردہ 20 نکاتی منصوبے کے حق میں قرارداد منظور کی تھی، جس میں غزہ میں عالمی امن فورس بھیجنے کی شق بھی شامل تھی۔ پاکستان نے بھی اس قرارداد کی حمایت کی تھی۔
امریکی عہدیدار مارکو روبیو کی پریس بریفنگ میں بتایا گیا کہ پاکستان اس معاملہ میں پیش کش کر چکاہے جس کے بعد پاکستان میں حکومت کو کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔اس تنقید کا رخ موڑنے کے لئے وفاقی وزیر اسحاق ڈار کہتے ہیں کہ اگر ہمیں یہ کہا گیا کہ وہاں جا کر لڑنا شروع کر دیں۔۔حماس کو غیر مسلح کریں اور اُن کی سرنگوں کو جا کر ختم کریں تو یہ ہمارا کام نہیں ہے۔ وہ ایک مسلمان کو دوسرے سے لڑانے والی بات ہو گی۔ ہم صرف امن قائم رکھنے اور سوشل ورک کے لیے وہاں جانے کو تیار ہیں۔یہ وہ وضاحت ہے جو پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے جمعے کو ہونے والی نیوز بریفنگ میں غزہ میں 3500 پاکستانی فوج بھیجنے کی میڈیا رپورٹس سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں دی۔یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب پاکستان کے دفتر خارجہ یا خود وزیر خارجہ کو غزہ میں ’انٹرنیشنل فورس‘ کے لیے پاکستانی فوج بھیجنے کے معاملے پر وضاحت کرنا پڑی ہو۔
برطانیہ میں مقیم پاکستانی مصنفہ عائشہ صدیقہ نے اسرائیلی اخبار ’ہارٹز‘ میں لکھے گئے اپنے مضمون میں دعویٰ کیا کہ صدر ٹرمپ، فیلڈ مارشل عاصم منیر سے غزہ میں اپنی فوج بھیجنے کا کہہ سکتے ہیں اور اس معاملے پر فیصلہ ایک بہت بڑا جوا ہو گا۔جمعے کے روز ہونے والی نیوز بریفنگ میں اسحاق ڈار کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی سول اور فوجی حکومت کے مابین اس معاملے میں مکمل ہم آہنگی ہے کہ ’ہم غزہ میں صرف امن قائم کرنے کے لیے جائیں گے۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ کس طرح کا امن ہے جو پاکستان کی فوج کو غزہ بھیج کر قائم کیا جائے گا۔ جبکہ پوری دنیا یہ دیکھ چکی ہے کہ گذشتہ ڈھائی سالوں میں اسرائیل نے فلسطینیوں کی نسل کشی کی ہے لیکن کسی بھی مسلمان فوج نے غزہ میں جا کر امن قائم کرنے کی کوشش نہیں کی تو اب کس طرح کا امن ؟اسی طرح فلسطین کےعوام اور فلسطینی دھڑوں نے کسی بھی غیر ملکی فوج کی غز ہ تعیناتی کو غیر قانونی اور فلسطین کی زمین پر قابض فورس سے تشبیہ دی ہے ۔فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ مسلمان ممالک کی افواج امریکی صدر ٹرمپ کی خواہش پر نیتن یاہو کی بقاء کے لئے غزہ تعیناتی کے منصوبہ کا حصہ نہ بنیں۔
اصولی طور پر اس معاملہ میں فیصلہ وہی ہونا چاہئیے جو فلسطینی عوام چاہتے ہیں، جو فلسطینی سیاسی و عسکری دھڑے چاہتے ہیں نہ کہ امریکی صدر کی خواہشات کی تکمیل کے لئے مسلمان ممالک کی افواج کو ایندھن بنایا جائے۔بہر حال یہ جنگ بندی کا دوسرا مرحلہ ہے جس کی تکمیل نا ممکن نظر آتی ہے۔اس کے بعد تیسرے مرحلہ میں غزہ میں ٹیکنو کریٹ حکومت کے قیام کا ہے پھر ا سکے بعد غزہ کی تعمیر نو کا کام شروع ہونا ہےجو کہ چوتھا مرحلہ ہے۔حال ہی میں پاکستان کے علماء اور مشائخ نے بھی پاکستان کی فوج کو غزہ جانے کے اقدام پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔مجلس اتحاد امت پاکستان‘ کے زیرِ اہتمام کراچی میں ہونے والی اس کانفرنس میں مفتی تقی عثمانی، مولانا فضل الرحمن اور مفتی منیب الرحمان سمیت متعدد مکاتب فکر کے علما نے شرکت کی تھی۔
خلاصہ یہ ہے کہ امریکہ جو اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے ایک امن معاہدہ فلسطینی عوام پر تھونپ دینا چاہتا تھا اور جنگ کی کامیابی کا کریڈٹ حاصل کرنا چاہتا تھا بری طرح سے ناکام ہو چکا ہے۔کیونکہ دنیا بھر کے سیاسی ماہرین کی رائے ہے کہ اگر کوئی بھی معاہدہ فلسطینی عوام کی مرضی کے بغیر لاگو کیا گیا تو وہ قابل عمل نہیں ہو گا اور مستبقل میں اس کے مزید نقصانات سامنے آئیں گے۔ ان تجزیات سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ امریکہ اور اسرائیل میدان میں شکست کھائی ہوئی جنگ کو میز پر بھی شکست کھاتے نظر آ رہے ہیں۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan