غزہ غزہ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) غزہ شہر سے نقل مکانی کا سیلاب تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ ساحلی شارع الرشید جو کبھی شہر کی رگِ جاں تھی، آج ایک نہ ختم ہونے والی قطار میں بدل چکا ہے۔ ٹرکوں اور بسوں کا ہجوم اور ہزاروں خاندان اپنے بچوں سمیت پیدل چلتے ہوئے اس کٹھن سفر پر گامزن ہیں۔ بہت سے افراد نے جانتے بوجھتے ہوئے موت کو گلے لگانے اور گھروں میں رہنے کا فیصلہ کیا ہے، چاہے اس کی قیمت کتنی ہی بھاری کیوں نہ ہو۔
یہ وہی راستہ ہے جس پر رواں سال کے آغاز میں لاکھوں شہری وقتی طور پر شمال کی جانب لوٹے تھے، مگر آج وہی راستہ دگنے کرب اور دوگنی اذیت کے ساتھ جنوب کی طرف لے جا رہا ہے۔ حالات کہیں زیادہ سنگین ہیں اور اخراجات اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ عام خاندانوں کی سکت سے باہر ہیں۔
کٹھن سفر، ناقابلِ برداشت اخراجات
نقل مکانی کا آغاز ایک کٹھن مرحلے سے ہوتا ہے۔ سامان باندھنے سے لے کر ٹرانسپورٹ ڈھونڈنے تک سب کچھ جان لیوا مشقت ہے۔ ایندھن کی شدید قلت اور گاڑیوں کی معطلی نے بسوں اور ٹرکوں کے کرایے ایک ہزار ڈالر سے بھی اوپر پہنچا دیے ہیں۔
وسطی اور جنوبی علاقوں میں جگہ کی شدید کمی کے باعث لوگ اپنا زیادہ تر سامان ساتھ لانے پر مجبور ہیں کیونکہ قابض اسرائیل نے ان کے محلوں اور گھروں کو کھنڈر بنا ڈالا ہے۔
غزہ شہر سے مواصی خانیونس تک کا فاصلہ اگرچہ مختصر ہے مگر راستے میں کھنڈرات، قابض کی طرف سے کھودے گئے گڑھوں اور گاڑیوں کی خرابی کے باعث پانچ پانچ گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ متعدد خاندان اپنی راتیں “تبہ النویری” پر کھلے آسمان تلے گزارنے پر مجبور ہیں، جسے لوگ “موت کا راستہ” کہتے ہیں۔
نقل مکانی کی المناک داستانیں
سلوى موسیٰ اپنے دکھ بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ”ہم پیدل نکلے کیونکہ کرایہ دینے کی استطاعت نہیں تھی۔ میرے شوہر شہید ہو چکے ہیں، پانچ بچے ہیں اور میرے ساتھ دل کے عارضے میں مبتلا پھوپھی بھی ہیں۔ آٹھ کلومیٹر کا فاصلہ سامان گھسیٹتے ہوئے طے کیا۔ آج ہم کھلے آسمان تلے پڑے ہیں کیونکہ خیمہ خریدنے کے بھی پیسے نہیں”۔
ام محمد مقداد کی عمر 65 برس ہے۔ 26 افراد پر مشتمل اپنے خاندان کے ہمراہ ایک گنجان بس کے ذریعے مواصی خانیونس پہنچی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ “ہم صبح غزہ سے نکلے اور گھنٹوں ٹریفک میں پھنسے رہے۔ نقل مکانی کے لیے 3500 شیکل (یعنی ایک ہزار ڈالر) دیے، پھر 2000 شیکل ماہانہ کرائے پر زمین کا ایک ٹکڑا لیا۔ دل کٹ جاتا ہے اپنا شہر چھوڑتے ہوئے مگر کوئی اور چارہ نہ تھا۔”
مہا البیرم بتاتی ہیں کہ ان کے شوہر نے چھ دن تک ٹرانسپورٹ ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ آخرکار انہیں ایک سکول بس کرائے پر لینا پڑی جو سامان لادنے کے قابل بھی نہ تھی۔ “پانچ گھنٹے شدید ہجوم میں گزرے، پانی نہ بیت الخلا، اور راستے میں سینکڑوں خاندان پیدل جا رہے تھے۔ یہ سفر کبھی نہیں بھولے گا”۔
براء ہانی جو شیخ رضوان محلے سے نکلے کہتے ہیں کہ “زندگی گویا ایک نہ ختم ہونے والی تعاقب بن گئی تھی۔ بمباری اور آگ کے پٹوں کے درمیان ہم اپنے بچوں سمیت ایک کمرے سے دوسرے کمرے بھاگتے تھے کہ کب عمارت سر پر گرے۔ تین ہزار شیکل دیے تاکہ مواصی میں جگہ ملے کیونکہ نہ دیر البلح میں مکان ملا نہ زمین۔ شارع الرشید کا منظر سنہ1948ء کی نکبہ یاد دلا رہا تھا… 75 سال بعد سب کچھ ویسے ہی دہرایا جا رہا ہے”۔
ہجرت… واپسی کے بغیر
غزہ کے عوام کے لیے نقل مکانی اب محض وقتی پناہ نہیں رہی بلکہ یہ جلاوطنی ہے جس کا کوئی افق نہیں۔ جنوبی اور وسطی علاقے پہلے ہی مہینوں سے بھرے ہوئے ہیں اور نئے آنے والوں کے لیے جگہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ خانیونس اور مواصی میں خیمے ساحل اور کھیتوں میں قطار اندر قطار لگے ہیں، کرایے آسمان کو چھو رہے ہیں۔
واپسی کی امیدیں ماند پڑ چکی ہیں لیکن ہزاروں خاندان اب بھی نقل مکانی کے لیے مجبور ہیں۔ یہ انسانیت سوز مناظر قابض اسرائیل کی منظم تباہی کی پالیسی کو عیاں کرتے ہیں جس نے غزہ کو اجڑی ہوئی بستیوں اور ملبوں میں بدل دیا ہے جہاں زندگی کی کوئی رمق باقی نہیں چھوڑی گئی۔