مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
قابض اسرائیلی فوج اور انتہا پسند صہیونی آبادکاروں نے مغربی کنارے کے مختلف علاقوں اور القدس شہر میں جدا جدا حملے کیے جن کے نتیجے میں 10 فلسطینی زخمی ہو گئے۔ یہ حملے اس وقت کے بعد ہوئے جب قابض فوج نے جنین میں قباطیہ اور السیلہ الحارثیہ پر دھاوا بولا ۔اس کارروائی کا انجام دو فلسطینیوں کی شہادت پر ہوا جن میں ایک کمسن بچہ بھی شامل تھا۔
فلسطینی ہلال احمر نے بتایا کہ اس کے عملے نے شمالی القدس میں الرام بلدہ کے قریب نسلی دیوار کے پاس دو نوجوانوں کو براہ راست گولی مار کر زخمی کیا۔ انہیں طبی امداد فراہم کی اور انہیں ہسپتال منتقل کیا گیا۔ یہ واقعہ اسی مقام پر چند گھنٹے قبل جنین شہر سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان اور پچاس سالہ شہری کے زخمی ہونے کے بعد پیش آیا۔
اریحا میں قابض فوجیوں نے عقبہ جبر پناہ گزین کیمپ کے جنوب میں سابق اسیر رمزی فواز بلہان کے گھر پر دھاوا بولتے ہوئے دو نوجوانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جس کے بعد ایمبولینس عملے نے انہیں طبی امداد فراہم کی۔
طولکرم شہر کے مشرق میں نور شمس پناہ گزین کیمپ کے اطراف قابض فوج کی فائرنگ سے ایک نوجوان زخمی ہوا۔ مقامی ذرائع کے مطابق نوجوان کیمپ کے مغربی داخلی راستے کے قریب موجود تھا کہ فوجیوں نے اس پر براہ راست گولیاں برسائیں جس سے اس کی دونوں ٹانگیں زخمی ہو گئیں۔
ادھر صہیونی آبادکاروں کے حملوں میں قلقیلیہ کے مشرق میں کفر قدوم اور طولکرم کے مشرق میں بیت لید کے درمیان تین فلسطینیوں کو تشدد کے ذریعے زخمی کیا گیا۔
فلسطینی وزارت صحت نے گذشتہ شام اعلان کیا کہ محافظہ جنین میں قابض اسرائیل کی فائرنگ سے دو شہری شہید ہوئے جن میں ایک بچہ بھی شامل ہے۔ شہدا میں السیلہ الحارثیہ بلدہ سے تعلق رکھنے والے 22 سالہ نوجوان احمد سائد زیود اور قباطیہ بلدہ سے تعلق رکھنے والے 16 سالہ بچہ ریان محمد عبدالقادر ابو معلہ شامل ہیں جبکہ قابض افواج نے بچے کی لاش کو تحویل میں لے رکھا ہے۔
ہلال احمر نے وضاحت کی کہ قابض افواج نے قباطیہ میں ایک شدید زخمی تک اس کے عملے کی رسائی روک دی جس کے باعث زخمی نوجوان زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہو گیا۔
ماورائے عدالت قتل عام کی پالیسی
اسی تناظر میں عبرانی اخبار ’یدیعوت احرونوت‘ نے عسکری ذرائع کے حوالے سے انکشاف کیا کہ قابض فوج نے مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے خلاف براہ راست قتل کی نیت سے فائرنگ کی پالیسی نافذ کرنا شروع کر دی ہے خصوصاً ان افراد کے خلاف جن پر پتھراؤ کا شبہ ہو۔ رپورٹ کے مطابق اس پالیسی کا پہلا واقعہ گذشتہ شام قباطیہ میں پیش آیا جہاں بچہ ریان ابو معلہ شہید ہوا۔
تاہم قصبے کے شہریوں نے قابض فوج کے بیانیے کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ بچہ کسی قسم کا خطرہ نہیں تھا۔ نگرانی کیمروں کی فوٹیج نے بھی یہ حقیقت آشکار کی کہ فائرنگ کے وقت وہ اطمینان سے چل رہا تھا اور اسے علاقے میں فوجی موجودگی کا علم تک نہیں تھا۔
شہید کے اہل خانہ نے بتایا کہ ریان کھیل کی تربیت سے واپس آ رہا تھا اور اچانک قریب سے گولیاں مار دی گئیں۔
اخبار کے مطابق قابض افواج کو نئی ميدانی ہدایات دی گئی ہیں جن کے تحت کسی بھی مشتبہ فلسطینی کو جان سے مار دینے کی اجازت دی گئی ہے چاہے معاملہ محض پتھراؤ کا ہی کیوں نہ ہو۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ قباطیہ میں یونٹ سیرت المظلیین کے فوجیوں نے اسی بنیاد پر بچے کو نشانہ بنایا۔
قابض فوج نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا کہ اس نے فائرنگ کر کے حملہ آور کو ہلاک کیا جبکہ فلسطینی ذرائع نے تصدیق کی کہ بچہ موقع پر ہی شہید ہو گیا اور کسی حقیقی خطرے کا باعث نہیں تھا۔
السيلہ الحارثیہ بلدہ میں پیش آنے والے ایک اور واقعے میں یدیعوت احرونوت کے مطابق نوجوان احمد سائد زیود کو ایک مبینہ دستی بم پھینکنے کے الزام میں شہید کیا گیا حالانکہ کسی فوجی کے زخمی ہونے کی اطلاع نہیں ملی۔
اخبار نے مزید لکھا کہ یہ دونوں واقعات سرحدی محافظ دستوں کی اس یونٹ کی واپسی کے بعد پیش آئے ہیں جسے چند ہفتے قبل جنین میں دو فلسطینیوں کی شہادت کے واقعے پر بین الاقوامی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا حالانکہ دونوں نے گرفتاری کے وقت مزاحمت نہیں کی تھی۔
قابض فوج کے وسطی کمان نے دعویٰ کیا کہ ان واقعات اور مہلک فائرنگ میں اضافے کے درمیان کوئی براہ راست تعلق نہیں تاہم اسی کے ساتھ ایسی ميدانی ہدایات کے اجرا کا اعتراف بھی کیا جن سے فوجیوں کو جان لیوا طاقت کے وسیع اختیارات مل گئے ہیں۔
رپورٹ کے اختتام پر کہا گیا کہ قابض اسرائیل اس سفاک پالیسی کو نام نہاد ردع کے جواز کے تحت پیش کرتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ اس سے دن دہاڑے پناہ گزین کیمپوں پر حملے ممکن ہو سکیں گے حالانکہ اسی دوران اسرائیلی گاڑیوں پر پتھراؤ اور آتش گیر بوتلیں پھینکنے کے واقعات میں اضافہ تسلیم کیا گیا ہے۔
