بیروت ۔ مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
لبنان کی شام ابھی پوری طرح اندھیرے میں ڈوبی بھی نہ تھی کہ عین الحلوہ کے آسمان پر اچانک آگ کا وہ شعلہ ابھرا جس نے پورے ایک مہاجر کیمپ کو ماتم کدہ بنا دیا۔ منگل کی شام ایک پُرامن کھیل کے میدان میں جہاں نوجوان اپنی بے فکری کی چند گھڑیاں گزارتے تھے، قابض اسرائیل نے وحشیانہ بمباری کی اور لمحوں میں ہنستی کھیلتی زندگیوں کو خاک اور خون میں بدل دیا۔ تیرہ فلسطینی شہید ہو گئے اور درجنوں زخمی، جن میں اکثریت ان نوجوانوں کی تھی جو میدانِ جنگ میں نہیں بلکہ کھیل کے میدان میں تھے۔
یہ حملہ کسی فوجی مرکز پر نہیں ہوا، نہ کسی عسکری تنصیب پر بلکہ ایک بند کھیل گاہ پر جہاں سنسناتی گولیاں نہیں گونجتی تھیں بلکہ دوڑتے قدموں اور قہقہوں کی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔
اور پھر ایک لمحہ ایسا آیا جب ہر طرف چیخیں تھیں، خون تھا اور ملبہ اور زمین پر گرے ہوئے وہ معصوم جسم تھے جن کا جرم صرف فلسطینی ہونا تھا۔
شہداء کے جسد خاکی بتا رہے تھے کہ قابض اسرائیل کا یہ وار کسی وقتی غیظ وغضب کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک منظم منصوبہ ہے جس کا مقصد نہ صرف غزہ بلکہ پورے خطے میں فلسطینی پناہ گزینوں کی زندگی کو جہنم بنانا اور ان کی پناہ گاہوں کی روح تک کو مسخ کر دینا ہے۔
فلسطینی حلقوں کی طرف سے شدید مذمت
فلسطینی جماعتوں اور لبنانی سماجی حلقوں نے اس حملے کو کھلی جارحیت قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ صرف ایک بمباری نہیں بلکہ پناہ گزینوں کی اجتماعی یادداشت اور ان کے اجتماعی وقار پر حملہ ہے۔ ان کے مطابق عین الحلوہ کا انتخاب اتفاقی نہیں تھا۔ یہ کیمپ فلسطینی ثابت قدمی اور اپنی سرزمین سے وابستگی کی علامت ہے۔ اسے نشانہ بنانا دراصل اس علامت کو مٹانے کی کوشش ہے۔
قتل گاہ بنے اس میدان میں آج بھی تباہی کی بو باقی ہے۔ وہ فٹ بال جسے لڑکے دوڑا رہے تھے، اب خون میں بھیگی ایک یادگار ہے۔ دیواریں ابھی تک چیخ رہی ہیں کہ یہ جگہ کبھی کھیل کی تھی جنگ کی نہیں۔
ماہرین کے مطابق یہ حملہ خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور بین الاقوامی فیصلوں کے پس منظر میں قابض اسرائیل کی اس کوشش کا حصہ ہے جس کے ذریعے وہ نہ صرف غزہ بلکہ فلسطینی پناہ گزینوں کے تمام کیمپوں پر اپنی مرضی کی نئی حقیقتیں مسلط کرنا چاہتا ہے۔
لبنانی تجزیہ نگاروں کے مطابق عین الحلوہ پر یہ حملہ اس خطرناک منصوبے کی ایک کڑی ہے جس کا مقصد فلسطینی وجود کو ایک بار پھر کچلنا اور لبنان کے اندر فلسطینیوں اور لبنانیوں میں بداعتمادی پیدا کرنا ہے۔
اس ہولناک لمحے نے ایک بات روزِ روشن کی طرح واضح کر دی ہے کہ فلسطینی کیمپ صرف رہنے کی جگہیں نہیں بلکہ تاریخ کا دھڑکتا ہوا دل ہیں۔ ان پر حملہ صرف انسانوں پر نہیں بلکہ پورے فلسطینی بیانیے پر حملہ ہے۔ عین الحلوہ میں ہونے والا یہ “قتل عام” خطے کے سیاسی مستقبل کے نقشوں کو بدلنے کی خطرناک کوشش ہے جسے ہر سطح پر روکنا لازم ہے۔