فلسطینی مجلس قانون ساز کے اسپیکر ڈاکٹرعزیز دویک نے ایک اردنی اخبار میں شائع ہونے والے اپنے نام منسوب اس بیان کی تردید کی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ رواں ماہ کے آخر تک فلسطینی جماعتیں مفاہمتی یادداشت پر دستخط کر دیں گی۔ رام اللہ میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میرے مفاہمت سے متعلق الفاظ واضح اور غیر مبہم تھے۔ میں اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ حماس کو مفاہمتی فارمولے پر تحفظات ہیں، جب تک ان کے دور کیے جانے کی ضمانت فراہم نہیں کی جاتی مفاہمت کا عمل آگے نہیں بڑھ سکتا۔ حماس نے فتح اور مصری حکام پر زور دیا تھا کہ وہ مفاہمتی یادداشت کو قابل عمل بنانے کے لیے اس تحفظات دور کرنے کے لیے یادداشت میں ترمیم کریں۔ جب تمام فلسطینی دھڑے ہر اعتبار سے مفاہمتی یادداشت پر مطمئن ہو جائیں تو اس کے بعد اس پر دستخط کرکے اسے منظور کرلیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین میں سیاسی تبدیلیاں اور فلسطینی جماعتوں میں مفاہمت کی اہمیت کے لیے شعور کی بیدار نے مفاہمت کے عمل کو قریب تر کر دیا ہے جو فلسطینی عوام کے لیے ایک خوش خبری ہے۔ صحافیوں کے ایک سوال پرعزیز دویک نے کہا کہ محمود عباس کی جانب سے استعفے کی صورت میں وہ آئینی ذمہ داریاں سنھبالنے کے لیے تیار ہیں کیونکہ صدر کی عدم موجودگی میں اسپیکر مجلس قانون ساز ان کا نائب ہوتا ہے اور الیکشن کرانے کی صورت میں اسپیکر کی حیثیت نگراں صدر کی ہوتی ہے جو ساٹھ دن کے اندر اندر ملک میں صدارتی انتخابات کرانے کا پابند ہوتا ہے۔ محمود عباس نے استعفیٰ دیا تو وہ نگراں صدر کے طور پر اپنی خدمات پیش کریں گے اور جلد از جلد صدارتی انتخابات کرانے کی کوشش کریں گے۔ انہوںنے کہا کہ حماس انتخابات سے زیادہ مفاہمتی عمل کو اہمیت دے رہی ہے جوفلسطینی عوام کی بنیادی ضرورت وقت کا تقاضا ہے۔ واضح رہے کہ ایک اردنی اخبار نے جمعہ کی اشاعت میں ڈاکٹر عزیز دویک کے نام منسوب ایک بیان میں کہا تھا کہ فلسطینی سیاسی جماعتیں رواں ماہ کے آخر تک مفاہمت یادداشت پر دستخط کرلیں گی۔