مقبوضہ فلسطین میں تحریک اسلامی کےسربراہ شیخ رائد صلاح کا کہنا ہے کہ کہ فلسطینی قوم اسرائیل کی خطے میں موجودگی تک اس کے خلاف مزاحمت جاری رکھنے پر متحد ہے۔ مزاحمت ہی فلسطینی قوم کے اتحاد کا سب سے بڑا مظہر ہے۔ جمعہ کے روز ذرائع ابلاغ کو دیے گئے بیان میں شیخ رائد صلاح نے عرب ممالک میں انقلابات کو خوش آمدید کہا اور کہا کہ ان انقلابات کی وجہ سے فلسطینی مزاحمت میں بھی تیزی آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تیونس، مصر اور لیبیا میں تبدیلی کے بعد فلسطینی نوجوان سمجھتے ہیں کہ تیونس، مصر اور لیبیا سے شروع ہونے والی تبدیلی کی لہر القدس اور مسجد اقصی کی رہائی پر منتج ہوگی۔ شیخ رائد صلاح کا کہنا تھا یہ بات قابل اطمینان ہے کہ عرب ممالک میں انقلابی تبدیلیوں کا مسئلہ فلسطین پر مثبت اثرات پڑے ہیں۔ نوجوان نسل کی اکثریت میں نئی تحریکیں جنم لے رہی ہیں اور یہ سب تحریکیں فلسطینی حقوق پر ثابت قدمی میں اضافہ کر رہی ہیں۔ اب کسی بھی فلسطینی عہدیدار اور ذمہ دار کے لیے فلسطین کے اندر سے اٹھنے والی ان آوازوں کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہا۔ سلسلہ گفتگو جاری رکھتے ہوئے شیخ صلاح نے کہا کہ عرب ممالک میں جلنے والی تبدیلی کی ہواؤں نے قوم کے دینی شعور کو مزید مضبوط کردیا ہے۔ اس بات پر سب متفق ہیں کہ اسرائیل کا وجود ناجائز ہے اور وہ اپنے زوال کی جانب بڑھ رہا ہے۔ عرب قوم دوبارہ اپنی آزادی کی جانب لوٹ رہی ہے جو اسرائیلی زوال کو یقینی بنانے کی خوش خبری ہے۔ شیخ رائد صلاح نے عرب انقلابات کی وجہ سے فلسطینی قوم کے مغربی کنارے اور غزہ میں تقسیم ہونے کے خدشے کو غلط قرار دیا اور کہا ’’فلسطینی معاملات کی اصل میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ کیونکہ یہ معاملہ صرف ایک واحد بنیاد پر کھڑا ہے وہ یہ ہے کہ جب تک اسرائیل یہاں موجود ہے اس کے خلاف مزاحمت ضروری ہے۔ اسرائیل کی موجودگی تک قوم کا مزاحمتی اختیار بھی باقی رہتا ہے۔ یہ ایک ایسا اصول ہے جس پر فلسطینی قوم منقسم نہیں ہوسکتی۔ بہ قول شیخ رائد صلاح سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کا تجربے سے کچھ حاصل نہیں ہوا بلکہ راستے مسدود ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا فلسطین اور عرب و اسلامی دنیا کو یہ سمجھ آچکی ہے کہ اسرائیل کے پاس اتنی استعداد نہیں ہے کہ وہ جو سوچے اس پر عمل بھی کر گزرے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل القدس کو یہودیانے کے عمل کے ساتھ ساتھ پوری مغربی کنارے کہ یہودی رنگ میں رنگنا چاہتا ہے تاکہ مشرقی مغربی کنارے کہ اسرائیلی ریاست میں شامل کیا جا سکے۔ آج یہ باتیں کھل کر سامنے آ گئی ہیں اسی لیے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات نے پوری قوم کو حقیقی فلسطینی مسلمہ حقوق پر متحد کر دیا ہے۔