عراق میں اسرائیلی اثرورسوخ کی مانیٹرنگ سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچی ہے کہ بغداد پرامریکی قبضہ دراصل اسرائیلی منصوبہ ہے اور امریکی ایوان اقتدار میں “نیو کانز” اس منصوبے کی تکمیل کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار بغداد یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر ڈاکٹر حمید شہاب نے ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ کانفرنس کا اہتمام عرب ڈیموکریٹک سینٹر کے تعاون سے کیا گیا تھا۔ انٹرنیشنل سینٹر فار فیوچراینڈ اسٹرٹیجک اسٹڈیز میں ہونے والی اس کانفرنس میں سرکردہ ماہرین اور دانشوروں نے شرکت کی۔ ڈاکٹر شہاب کا کہنا تھا کہ عراق کو کمزور اور منسقم رکھنے کے لئے مقامی اور علاقائی طاقتوں کے درمیان ایک غیر تحریری معاہدہ کیا گیا ہے کیونکہ عراقی فورسسز اور یہاں پر امن و استحکام اسرائیل کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں۔ اس بات کا امکان موجود ہے کہ عراق، اسرائیل مخالف کیمپ کی طرف لوٹ جائے کیونکہ اب بھی عراقیوں کی بڑی اکثریت صہیونی ریاست کو مقبوضہ آبادی سمجھتی ہے، جس نے اپنی ظالمانہ پالیسی کے نتیجے میں لاکھوں افراد کو بے گھر کیا۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے عراق میں اقدامات اور کردار بڑا خطرہ ہے۔ اس کردار پر کبھی روشنی نہیں ڈالی گئی۔ امریکا، عراق میں اسرائیلی کردار پر اب تک پردہ پوشی کرتا چلا آیا ہے۔ انہوں نے ایہود اولمرٹ کے دور میں ان کے ایک وزیر “آوی ایختر” کے ایک لیکچر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ خود اسرائیلی وزیر اعتراف کرتا ہے کہ ہم نے عراق میں موجودہ صورتحال کو جوں کا توں رکھ کراپنے منصوبے سے بھی بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ مسٹر آوی ایختر کے بہ قول عراق کا اتحاد اور فوجی قوت ہمارے لئے ایک اسٹرٹیجک خطرہ رہا ہے، لیکن اب ہماری کوششوں سے یہ ملک جغرافیائی اور آبادی کے لحاظ سے منقسم ملک ہے۔ اپنے لیکچر کا اختتام صہیونی وزیرآوی ایختر کے خطاب سے لئے گئے اقتباس پر کرتے ہوئے ڈاکٹر شہاب نے کہا کہ “اسرائیل، عراق کو موجودہ صورتحال سے دوچار کرنے کی کوششوں سے الگ نہیں ہوا، جب تک امریکی فوج اس سرزمین پر موجود ہے ہماری جنگ جاری ہے۔ امریکیوں کی عراق میں موجودگی ہماری ان کوششوں کو ایک کور فراہم کر رہی ہے کہ جو ہم عراق کو ماضی کی طرح فوجی قوت اور متحدہ ملک بننے سے روکنے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔