مغربی کنارے میں ’’فتح‘‘ کے زیر انتظام فلسطینی انتظامیہ کی ملیشیا نے لگ بھگ ساڑھے تین ہزار حماس کے حامی فلسطینیوں کو قید کرنے کے باوجود اپنی پکڑ دھکڑ مہم جاری رکھی ہوئی ہے۔ گزشتہ روز بھی بیت لحم، طولکرم، قلقیلیہ اور نابلس سے مزید 17 افراد کو اغوا کر لیا گیا ہے۔ عباس ملیشیا نے اپنی ظالمانہ کارروائیاں جاری رکھتے ہوئے بیت لحم میں بڑے پیمانے پر چھاپہ مار کارروائیاں کیں اور حماس کے معروف رہنماؤں ڈاکٹر غسان ھرماس اور شیخ حسن الوردیان کو ان کے گھروں سے اغوا کر لیا ہے۔ ملیشیا کے اہلکار کئی گھنٹے گھروں میں توڑ پھوڑ اور ان کی تلاشی لیتے رہے۔ واضح رہے کہ ھرماس دسویں فلسطینی حکومت میں امور خواتین کی وزیر امل صفام کے شوہر ہیں۔ یہ ان رہنماؤں میں شامل ہیں جنہیں 1992ء میں اسرائیلی فوج نے لبنان کے علاقے مرج الزھور کی جانب بے دخل کر دیا تھا اور وہ شہید عبد العزیز رنتیسی کی قیادت میں بہت کٹھن مراحل کے بعد واپس فلسطین آنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ دوسری جانب شیخ الوردیان بھی 15 سال اسرائیلی جیلوں میں مقید رہ چکے ہیں۔ انہیں اور ان کے بیٹے کو اس سے قبل بھی متعدد مرتبہ اغوا کیا جا چکا ہے۔ القدس میں فتح حکومت کی ایک عسکری عدالت نے اغوا کیے گئے مصعب سلیم شماسنہ کو چھ ماہ قید کی سزا سنا دی ہے۔ طولکرم میں بھی عباس حکومت کے خفیہ اداروں نے سابقہ اسبر صدیق عودہ اور ان کے بھائی جاسم عودہ کو صیدا کے علاقے اغوا کر لیا تاہم جاسم کو کچھ گھنٹوں بعد رہا کر دیا گیا۔ قلقیلہ میں محمود عباس کی پری وینٹو فورسز نے ایک سابق اسیر جمال داوود کو شہر سے اٹھا لیا ہے۔ نابلس میں بھی عباس ملیشیا نے قبلان کے علاقے میں حماس کے متعدد افراد کی ناجائز گرفتاریاں کی ہیں 1993ء کے اوسلو معاہدہ کے بعد سے تحریک فتح اسرائیلی ریاست کو تسلیم کر چکی ہے اور اب مغربی کنارے میں اس کی حکومت اسرائیلی فوج کے ساتھ بھرپور تعاون کرتے ہوئے فلسطینی مزاحمت کاروں کے خلاف آپریشن جاری رکھے ہوئے ہے۔ فلسطین کی آزادی کا نعرہ لگانے کی پاداش میں اس وقت 7000 سے زائد فلسطینی اب بھی اسرائیلی جیلوں اور 3500 کے لگ بھگ عباس ملیشیا کی عقوبت خانوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔