فلسطینی پارلیمنٹ کے رکن ھدی نعیم نے کہا ہے کہ مغربی کنارے سے لاکھوں فلسطینیوں کے زبردستی انخلاء کے صہیونی فیصلے پر عملدرآمد کی اصل وجہ مسئلہ فلسطین سے عالم عرب کی کمزور وابستگی ہے۔
نعیم نے بروز منگل اپنے ایک اخباری بیان میں کہا ہے کہ لیبیا میں ہونے والی سربراہی اجلاس کی مانند عرب سربراہی اجلاس کے بعد اسرائیلی مجرمانہ فیصلوں پر عمل درآمد کے امکان بڑھ گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ عرب سربراہی کانفرنس کے بعد اسرائیل کو واضح طور پر عرب کی انتظامی کمزوری اور مسئلہ فلسطین کی مدد کے لیے واضح اور ٹھوس فیصلہ نہ کر سکنے کی اسکی اہلیت کا دوبارہ علم ہو گیا۔
عرب اور اسلامی معاشروں کی مسئلہ فلسطین اور اسلامی مقدسات کو یہودیانے یا منہدم کرنے کے صہیونی اقدامات سے کمزور وابستگی کی بدولت اسرائیل کوقوت پانے اور مدد ملنے کا احساس ہوا اور اسے معلوم ہو گیا کہ عرب کی اس کمزوری کی وجہ سے مسئلہ فلسطین کے تصفیے کے لیے قراردادیں پیش کرنےاور نافذ کرنے کی اسکی کارروائیوں پر پردہ پڑ جائے گا۔
نعیم نے کہا کہ ان قراردادوں کا اصل ہدف فلسطینی سرزمین پر قبضہ اور اہل فلسطین کو در بدر کر کے ان کو فلسطینی شناخت سے محروم کرنا ہے۔ اسرائیل اس بابرکت سرزمین پر فلسطینیوں کی میراث اور ان کے معاشرے کے آثار تک مٹا دینا چاہتا ہے۔ اس ضمن میں توجہ طلب امر یہ بھی ہے فلسطینی تحفظات کے باوجود اوباما نے اپنے منصوبے پر عملدرآمد سے ہاتھ کھینچ لیا کیونکہ وہ اسرائیل سے اپنی بات منوانے پر قادر نہیں۔
نعیم نے اس عالمی خاموشی کی صدائے بازگشت سے مسلمانوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا ’’ دشمن کے خلاف اول مرحلے میں فلسطینی جماعتوں میں اتحاد اورپھر عرب ممالک میں اتحاد اور آپس میں گہرے رسمی تعلقات قائم نہ ہونے کی صورت میں سال 2010 مسئلہ فلسطین کے لیے خطرناک ترین سال ثابت ہو گا۔ عالم اسلام کی بے حسی کے سبب اسرائیل یہودی آباد کاری کے ذریعے مسئلہ فلسطین کے تصفیے کے اپنے منصوبے کو بڑی تیزی سے اختتام تک لے جائے گا۔ ‘‘