غزہ-مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
غزہ وہ سرزمین جو کبھی بچوں کی ہنسی سے گونجتی تھی، آج بینائی سے محروم آنکھوں اور جسم سے کٹے ہاتھ پاؤں کے بوجھ تلے کراہ رہی ہے۔ عالمی یومِ معذورین دنیا میں ہمدردی اور انسانیت کا درس دیتا ہے مگر غزہ کے معذور فلسطینیوں کے جسم اور روحیں اس دن کو ایک ایسے نوحے میں بدل دیتے ہیں جسے سن کر دل بھی لرز اٹھتا ہے۔
قابض اسرائیل کی وحشیانہ جنگ نے غزہ کی گلیوں میں صرف ملبہ نہیں چھوڑا بلکہ ایسی معذوریاں جن کی گونج نسلوں تک سنی جائے گی۔ بموں نے گھروں کو بکھیرنے سے پہلے جسم توڑے، روشنی چھینی، سماعتیں چھینیں، بچوں کی ٹانگیں کاٹ ڈالیں اور نوجوانوں سے مستقبل چھین لیا۔ اس شہر کے زخم اب صرف خون بہانے والے زخم نہیں رہے، یہ وہ زخم ہیں جو عمر بھر کا سایہ بن چکے ہیں۔
غزہ کا صحت کا نظام پہلے ہی کھنڈر تھا، لیکن قابض اسرائیل نے اسے بالکل مٹا کر رکھ دیا۔ ہسپتالوں کے دروازے ٹوٹے، آپریشن تھیٹر ویران ہوئے، دوائیں ختم ہو گئیں، ڈاکٹر ہاتھ باندھ کر رہ گئے۔ وہ چوٹیں جو چند ٹانکوں سے بھلائی جا سکتی تھیں وہ اب ہمیشہ کے لیے مستقل معذوری بن چکی ہیں۔ یہاں درد کی دوا نہیں ملتی، یہاں صدمہ زندگی بن چکا ہے۔
بچوں کی حالت سب سے کربناک ہے
وہ ننھے جسم جنہیں کھیل، دوڑ، ہنسی اور شرارت کے لیے بنایا گیا تھا اب انہی چھوٹی چھوٹی ٹانگوں اور ہاتھوں سے محروم ہیں۔ کئی بچے ایسے ہیں جن کے لیے اس دنیا میں ایک پاؤں آگے بڑھانا بھی اب خواب ہے۔ کوئی بچہ اپنی ماں کا چہرہ نہیں دیکھ سکتا کیونکہ اس کی بینائی جنگ کی نذر ہو گئی، کوئی ماں اپنے بیٹے کی آواز نہیں سن سکتی کیونکہ کانوں میں صرف دھماکوں کی گونج باقی رہ گئی ہے۔
کل کے یہ نوجوان اپنے گھروں کے ستون تھے مگر آج وہ خود عصا کے محتاج ہیں۔ وہ جو اپنے بوڑھے والدین کا سہارا بننے والے تھے آج اپنے جسم کا بوجھ اٹھانے سے بھی قاصر ہیں۔ ایسے میں غربت، بھوک، بے گھر ہونے اور نفسیاتی صدمے انہیں ایک ایسی تاریکی میں دھکیل رہے ہیں جس سے نکلنے کے لیے دنیا بھر کی انسانیت بھی کم پڑ جائے۔
بحالی مراکز تباہ، فزیوتھراپی یونٹ ملبہ، دوائیں نایاب، مصنوعی اعضا بند، سرحدیں سیل اور ان تمام رکاوٹوں کے بیچ غزہ کا معذور فلسطینی ہر روز اپنے ٹوٹے جسم کے ساتھ اٹھتا ہے اور پھر خود کو اس امید پر سہارا دیتا ہے کہ شاید کل کا دن آج سے بہتر ہو۔
لیکن اس کے باوجود یہ لوگ ہارے نہیں۔ یہ معذور نہیں بلکہ عزم کے ستارے ہیں۔ جسم ٹوٹے ہوں تو ہیں، ان کے ہمت کے ستون نہیں ٹوٹے۔
ان کی روحیں ابھی بھی زندہ ہیں، روشن ہیں اور جدوجہد سے بھرپور ہیں۔
غزہ کا معذور فلسطینی دنیا کو بتا رہا ہے کہ معذوری وہ نہیں جو جسم پر آتی ہے، اصل معذوری وہ ہے جو دل سے ہمدردی اور آنکھوں سے انصاف کی روشنی کو چھین لے۔ آج اگر عالمی یومِ معذورین غزہ کے نام کر دیا جائے تو شاید یہ دن اپنی اصل معنویت پا لے۔
یہ وقت ہے کہ دنیا کے دروازے کھلیں، دوائیں آئیں، مصنوعی اعضا آئیں، مریضوں کے لیے راستے کھلیں، اور عالمی ادارے صرف بیانات نہیں بلکہ مدد کے ساتھ میدان میں اتریں۔ غزہ کے معذور فلسطینی محض مریض نہیں، یہ زندہ گواہ ہیں اس ناقابل بیان سفاکیت کے جو قابض اسرائیل نے ان پر توڑی، اس نسل کشی کے جو آج بھی جاری ہے اور اس انسانیت کی جو دنیا بھر سے مانگ رہی ہے کہ وہ اٹھے اور ظلم کے سامنے انسانی وقار کی ڈھال بنے۔