گذشتہ پیر کے روز غزہ کی معاشی ناکہ بندی توڑنے کی غرض سے ترکی سے آنے والے امدادی بحری بیڑے” آزادی” پر حملہ کرنے والے ایک یہودی فوجی نے اعتراف کیا ہے کہ امدادی قافلے میں شامل رضاکاروں پر اس نے اندھا دھدد فائرنگ کی جس کے نتیجے میں کم از کم چھ رضاکار جاں بحق اور کئی زخمی ہوئے۔ برطانوی اخبار” دی ٹائمز نے اسرائیلی اخبار”یروشلم پوسٹ” میں شائع صہیونی فوجی کی حملے کی روداد میں بعض اقتباسات نقل کیے ہیں، جس میں صہیونی فوجی کا کہنا ہے کہ” اسے خوشی ہے کہ اس نے جہاز میں گھس کر امدادی کارکنوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا”۔ صہیونی فوجی نے یہ اعترافات ایک ایسے وقت میں کیے ہیں جبکہ ترکی کی ایک میڈیکل ٹیم نے جاں بحق ہونے والےافراد کے پوسٹ مارٹم کے بعد رپورٹ میں کہا کہ گیارہ افراد کو بہت قریب سے ان کے سروں میں گولیاں ماری گئی ہیں۔ اخبار”دی ٹائٓمز” نےاپنی ہفتے کی اشاعت میں شامل رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ پیر کے روز امدادی بحری بیڑے کے چھ رضاکاروں کو قتل کرنے والے صہیونی فوجی کو سرکاری اور غیر سرکاری یہودی تنظیموں نے”تمغہ جرات” دینے کی تیاریاں شروع کی ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ صہیونی درندہ صفت فوجی کو یہ اعزاز اس وقت دیا جائے گا جب ترکی اور اسرائیل کے درمیان تعلقات مزید کشیدہ ہو جائیں گے۔ رپورٹ کے مطابق انتہا پسند یہودی تنظیموں کی طرف سے امدادی رضارکاروں پر حملوں میں ملوث تمام یہودی فوجیوں کو انعامات دینے کی تیاریاں بھی کی جا رہی ہیں۔ رپورٹ میں اسرائیلی فوجی کا نام ظاپر نہیں کیاگیا تاہم اتنا بتایا گیا ہے کہ چھ رضاکاروں کے قتل میں ملوث اس یہودی فوجی کا نام [س] سے شروع ہوتا ہے۔ یہ فوجی کمانڈو ان پندرہ یہودی فوجیوں میں شامل تھا، جو بلیک ہاک ہیلی کاپٹر کے ذریعے امدادی بیڑے پر اترے تھے، اور اترتے ہی انہوں نے جہاز کے رضاکاروں پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی تھی۔