فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے زیراہتمام وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں منعقدہ بین الاقوامی یکجہتی فلسطین کانفرنس میں ملکی و غیر ملکی سیاسی، سماجی اور مذہبی شخصیات نے شرکت کی۔ شرکت کرنے والوں میں ڈاکٹر شیخ الاسلام (بین الاقوامی القدس کمیٹی)، ڈاکٹر حیدر دقماق (قدس ایسوسی ایشن لبنان)، ڈاکٹر احمد ملی (عہدیدار سیاسی بیورو حزب اللہ)، آغا مرتضٰی پویا، علامہ ناصر عباس جعفری، علامہ افتخار حسین نقوی، علامہ محمد امین شہیدی، علامہ قاضی احمد نورانی، شیخ رشید، جے سالک اور دیگر شخصیات نے شرکت کی۔
بین الاقوامی القدس کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر شیخ الاسلام نے کہا کہ صیہونی سامراج کمزور اور اکیلا ہوتا جا رہا ہے۔ بہت جلد فلسطین آزاد ہوگا اور مہاجرین واپس اپنے گھروں کو جائیں گے۔ جمہوریت کے علمبردار ممالک اگر فلسطین میں جمہوری انتخابات کروانا چاہتے ہیں تو ہم ان پر یہ بات واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ یہودی اور عیسائی بھی ہمارے ساتھ ہیں۔ ہماری مزاحمت جاری رہے گی، اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مطالبہ عالم اسلام سے غداری ہے۔ ہم اپنے پاکستانی غیور بھائیوں کے مشکور ہیں کہ جنہوں نے ہر مشکل کھڑی میں ہمارا ساتھ دیا۔
قدس ایسوسی ایشن لبنان کے انچارج ڈاکٹر حیدر دقماق نے کہا کہ فلسطینیوں کے اسلام پر کاربند رہنے کا ہی نتیجہ ہے کہ وہ ساٹھ سالوں سے تن تنہا صیہونیت کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ قدس کے اندرونی مسائل لوگوں تک پہنچائے جائیں۔ قدس کے اندر کسی بھی آزادی کے لئے کوشش کرنے والے کو آزادی سے زندگی گزارنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس کے باوجود مجاہد پوری طاقت سے صیہونیت کے خلاف کھڑے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ انڈیا اور پاکستان کے لوگوں کا مسئلہ فلسطین کے حوالے سے بڑا اہم کردار رہا ہے۔ فلسطین کی سرزمین انبیاء کی سرزمین ہے، یہ ہمارے لئے مقدس ہے اور اسکی حمایت اور حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔ یہ سلسلہ جو آپ لوگوں نے شروع کر رکھا ہے، اسکو عام کرنے کی ضرورت ہے۔
حزب اللہ لبنان کے سیاسی انچارج نے کہا کہ پاکستانی سرزمین سے خاص محبت کی وجہ یہاں شہید عباس موسوی کی آمد اور یہاں کے لوگوں کی محبت اور شفقت ہے۔ اس کے علاوہ شہید کی برسی کے موقع پر بھی پاکستان میں جس طرح تقریبات کا انعقاد کیا گیا وہ یہاں کے لوگوں کی اسلام دوستی کا عکاس ہے۔ آج ہم اسرائیل کی لبنان میں شکست کا چھٹا جشن منا رہے ہیں۔ ہم تمام دوسری جماعتوں سے بھی چاہتے ہیں کہ لوگ آکر ہمارے ساتھ بیٹھیں اور شام کے معاملات کا بھی بہتر حل نکالا جائے۔
کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے عوامی مسلم لیگ کے رہنماء شیخ رشید نے کہا کہ جہاد پر جس کا ایمان نہیں وہ مسلمان نہیں، کیونکہ جہاد مسلمانوں کے لئے سب سے زیادہ عظیم ہے۔ مسئلہ فلسطین عالم اسلام کا مسئلہ ہے اور مملکت پاکستان کے عوام کے دل مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم مملکت پاکستان میں حقیقی اسلام کے لئے کوششیں کریں، اسلام کے لئے ضروری ہے کہ محبت بڑھائی جائے۔ امام بارگاہ اور مساجد سے محبت کا اظہار ہونا چاہئے۔ اس وقت تک ہم پاکستان میں مل کر آدھا خمینی بھی نہیں بنا سکے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم پاکستان کو حقیقی اسلامی ملک بنائیں، کیونکہ اس وقت سب سے بڑا سانحہ یہ ہے کہ ہمارا پڑوسی ہندوستان جو کہ گاندھی کا ہندوستان تھا، نہرو کا ہندوستان تھا، وہ کہاں گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اب ہندوستان نہرو یا گاندھی کا نہیں ہے، اب ہندوستان امریکہ کا ہندوستان ہے۔ آج ہندوستان امریکہ کی جھولی میں بیٹھا ہے، اور آئے روز ہمیں کسی نہ کسی طرح سے ڈرایا اور دھمکایا جا رہا ہے۔ ہمیں یہ سب کچھ دیکھنا ہوگا اور پھر عالم اسلام کے اس مسئلے کے لئے سوچنا ہوگا۔
معروف سیاست دان آغا مر تضٰی پویا نے کہا کہ فلسطین کی آزادی اصل میں آزادی کشمیر کی ضامن ہے، 1987ء میں مکہ میں صہیونی حکومت کے ایماء پر مسلمانوں پر حملہ کیا گیا، جس پر تمام امت کی خاموشی مجرمانہ تھی۔ مصر میں اسلامی تحریک بہت پہلے ابھر سکتی تھی مگر عرب حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی نے ان تحریکوں کو اپنی ہوس کی خاطر پس پشت ڈال دیا۔ اور اب یہ عرب ممالک شام کی حکومت کو کمزور کرنے اور اپنے بیرونی آقاؤں کو خوش کرنے کیلئے قطر حکومت کے ذریعے شام میں ہزاروں طالبان داخل کر رہے ہیں، تاکہ اسلامی مزاحمت کا راستہ روکا جائے۔ انہوں نے کہا کہ قائداعظم ہمیشہ فلسطینیوں کے حامی رہے اور آج کے حکمران کہتے ہیں کہ فلسطین ہمارا پڑوسی ملک تو نہیں، ہمارا اس سے کیا واسطہ ہے۔
ان کہنا تھا کہ ہمارا پڑوسی ملک صرف اور صرف امریکہ ہے اور ہم امریکہ ہی کی حمایت کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سوویت یونین نے دو ماہ میں فیصلہ کر لیا تھا کہ ہم افغانستان سے چلے جائیں گے، لیکن یہ آل سعود اور امریکی ہی تھے، جنہوں نے انہیں روکا۔ جعلی جہاد اور جعلی جنگوں نے پاکستان اور افغانستان کو تباہ کیا۔
مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ آج شام میں جو کچھ ہو رہا ہے، صرف اور صرف فلسطین کی حمایت کی سزا دی جا رہی ہے۔ افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ترکی، قطر اور سعودی عرب صیہیونی طاقتوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ جبکہ خود وہ اسرائیل، جو نیل سے فرات تک کی باتیں کرتا تھا، آج خود اپنے اندر دیواریں بنا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم ہر مظلوم کے حامی اور ہر ظالم کے دشمن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امریکی افواج کی آئے دن کی خودکشیاں اس بات کی دلیل ہیں کہ اسرائیل اور امریکہ مسلسل شکست پذیر ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ دنیا بھر میں فلسطینی عوام سے اظہار یکجہتی اور فلسطین کے مظلوم عوام کی حمایت کے لئے بڑھتی ہوئی بیداری اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا، اور اللہ کا وعدہ ہے کہ ہم مستضعفین کو زمین کا حقیقی وارث بنائیں گے۔
کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے ورلڈ مائے نارٹیز الائنس کے رہنما جے سالک نے کہا کہ عالمی برادری بے ضمیر ہے اور عالمی انصاف کے اداروں نے مسئلہ فلسطین کو حل نہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے اور یہ عالمی امن کے ادارے بشمول یونائٹیڈ نیشن صہیونی غاصب حکمرانوں کے ایماء پر کام کرتے ہیں، اگر ہمیں فلسطین آزاد کروانا ہے تو ہمیں یونائٹیڈ نیشن کو آزاد کرانا ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی پارلیمنٹ میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر قراردادیں پیش ہوتی ہیں، لیکن فلسطین کے مسئلے پر خاموشی کیوں ہے، ہمیں ابھی اور کام کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین کا مسئلہ تیسری عالمی جنگ کی طرف جا رہا ہے، دوسری عالمی جنگ میں پانچ کروڑ جانوں کا نقصان ہوا تھا، خدا نہ کرے کہ تیسری عالمی جنگ میں دنیا ہی تباہ ہو جائے۔
جمیعت علمائے پاکستان نورانی گروپ کے رہنما اور فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کی سرپرست کمیٹی کے ممبر جناب قاضی احمد نورانی نے کہا کہ مسئلہ فلسطین عالم انسانیت کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، یہ نہ زمین کا مسئلہ ہے نہ کسی مسلک کا، بلکہ یہ انسانیت کا مسئلہ ہے۔ صیہیونیوں نے ایک جھوٹ کو بنیاد بنا کر ایک غاصب ریاست قائم کی اور فلسطینیوں پر جو مظالم کیے گئے اگر وہ تحریر مین لائے جائیں تو وہ دنیا کے تمام مظالم سے زیادہ ہیں۔
فلسطین کے پڑوسی اسلامی ممالک کو فلسطین کے مظلوم لوگ کیوں نظر نہیں آتے، وہاں کے مسائل ان کی نظروں سے کیوں اوجھل ہیں۔ فلسطین کے عوام سے جن ممالک کا براہ راست رابطہ ہے ان ممالک کو پہل کرنا ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ماہ رمضان المبارک جہاں عبادت کا مہینہ ہے، وہاں غزوات کا مہینہ بھی ہے، فلسطین فاؤنڈیشن نے اپنے ماضی کے تمام پروگرامات خصوصاً گلوبل مارچ سے یہ ثابت کر دیا کہ پاکستان کی عوام، فلسطین کی حمایت سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے۔ کانفرس کے آخر میں قراردادیں پیش کی گئیں۔