مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
غزہ کی خون آشام جنگ کے بیچ رفح کے اجڑے ہوئے محاصر ہ زدہ علاقےمیں زمین پر گرایا گیا ایک زخمی فلسطینی مجاہد اور اس کے اردگرد کھڑے قابض اسرائیل کے سنگین بردار فوجی۔ صہیونی فوج نے یہ منظر اپنے پروپیگنڈے کے طور پر نشر کیا تھا، مگر دنیا بھر میں پھیلتی اس ویڈیو نے الٹا فلسطینی مزاحمت، انسانی عظمت اور غیرفانی عزم کی گواہی بن کر ابھرنے کا کام کیا۔
یہ ویڈیو محض ایک زخمی مجاہد کا جسم زمین پر پڑا دکھاتی ہے، مگر اس کی آنکھوں میں روشن غیرت اور وجود میں باقی بچی ہوئی آخری حرارت واضح کرتی ہے کہ اس نے اپنے زخموں کے باوجود دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا۔
جنیوا کنونشن کے مطابق زخمیوں اور اسیران کی تصاویر جنگی پروپیگنڈے کے لیے استعمال کرنا انسانیت کے منافی جرم ہے، مگر قابض اسرائیلی فوج نے اس بین الاقوامی پابندی کو روندتے ہوئے اس ویڈیو کو ’’گرفتاری‘‘ کے ڈھونگ کے طور پر نشر کیا۔ اس کوشش نے حقیقت چھپا دینے کے بجائے دنیا کو وہ سب دکھا دیا جسے غاصب طاقت برسوں سے چھپانے کی کوشش کر رہی تھی؛ یعنی فلسطینی ارادے کی وہ فولادی طاقت جو جتنے بھی محاصرے ہوں جھکنے سے انکار کرتی ہے۔
رفح کے کھنڈرات میں بنی یہ ویڈیو اس لمحے سامنے آئی جب قابض اسرائیل کی فوج دعویٰ کر رہی تھی کہ اس نے رفح کی سرنگوں پر لگاتار بمباری اور یلغار کے دوران ’’درجنوں مزاحمت کاروں‘‘ کو شہید کیا ہے۔ مگر اس زخمی مجاہد کی تصویر نے دنیا کو بتا دیا کہ سرنگوں کے تاریک راستوں سے نکلنے والے یہ سپوت صرف جنگجو نہیں بلکہ ایک ایسی قوم کی غیرت کے محافظ ہیں جسے پوری دنیا نے تنہا چھوڑ دیا ہے۔
واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر جذبات کی ایک رو بہہ نکلی۔ ہزاروں صارفین نے لکھا کہ یہ منظر ایک انسان کا نہیں بلکہ پوری فلسطینی قوم کے حوصلے کا آئینہ ہے۔
جسم زمین پر مگر ہمت آسمان پر
خالد صافی نے لکھا کہ ’’زخمی مجاہد کے ہاتھ تو زمین پر تھے مگر اس کی ہمت آسمانوں کو چیرتی محسوس ہوئی۔ مرد اس وقت نہیں ہارتے جب ان کے جسم زخموں سے چور ہو جائیں، وہ اس وقت ہارتے ہیں جب ان کے دل بجھ جائیں اور ان مجاہدین کے دل نہیں بجھتے۔‘‘
صحافی محمد ہنیہ نے جذبات سے لبریز الفاظ میں کہاکہ ’’یہ رفح کا وہ بیٹا ہے جس نے آخری سانس تک لڑائی کی۔ دنیا نے اسے تنہا چھوڑ دیا مگر اس نے اپنی سرزمین کو تنہا نہیں چھوڑا‘‘۔
نصر البوسعيدی نے لکھا کہ ’’ دشمن کے وحشی فوجی اسے گھیرے ہوئے تھے اور وہ زخمی حالت میں زمین پر تھا، بھوکا تھا، پیاسا تھا، مگر شکست اس کے چہرے سے کوسوں دور تھی‘‘۔
ہدٰی نعیم نے صہیونی عقوبت خانوں میں قید ہونے والے مجاہدین کی اذیت ناک حالت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ایسے مجاہدین کا گرفتار ہونا جانتے ہیں کیا معنی رکھتا ہے؟ یہ خاموشی ان زیرزمین قبروں پر خاموشی ہے جو انہیں اذیت دینے کے لیے تعمیر کی گئی ہیں‘‘۔
بہت سے صارفین نے اسے ’’ایک گرفتاری نہیں بلکہ ایک ایسی صلابت کی شہادت‘‘ قرار دیا جو صرف سرنگوں کے اندھیروں میں جنم لیتی ہے۔ ایک صارف نے لکھا ’’یہ گرفتاری نہیں۔ یہ اس دھات کا ثبوت ہے جو سرنگوں کے اندر پگھلتی ہے۔ یہ زخمی نکلے مگر دشمن کا نظام ہلا کر نکلے۔ دنیا نے انہیں چھوڑ دیا مگر انہوں نے اپنی مٹی نہیں چھوڑی‘‘۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے بھی سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ ویڈیو زخمیوں اور اسیران کے ساتھ قابض اسرائیل کے مسلسل مجرمانہ سلوک کا ایک اور ثبوت ہے۔
جان قربان مگر شکست تسلیم نہیں
یوں رفح کے محاصرے میں ایک زخمی مجاہد کا یہ مختصر سا لمحہ پوری دنیا کے سامنے اس حقیقت کو ایک بار پھر نمایاں کر گیا کہ فلسطینی اپنے لہو سے لکھی ہوئی استقامت کے باب میں کبھی شکست تسلیم نہیں کرتے۔ ان کے زخم ان کی طاقت ہیں، ان کی تنہائی ان کی دلیل ہے اور ان کا وجود اپنی سرزمین کے لیے ابدی عہد ہے۔