متنازعہ فلسطینی صدر محمود عباس اور ان کی جماعت الفتح کے منحرف لیڈر محمد دحلان کے درمیان کشیدگی عروج پر پہنچ گئی ہے. ذرائع کے مطابق فلسطینی صدر اور دحلان کے درمیان کشیدگی حال ہی میں اس انکشاف کے بعد تیز ہوئی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ دحلان اپنے حامیوں کے ساتھ فلسطینی اتھارٹی کو بزور قوت کنٹرول میں لینا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے وہ اپنے ایجنٹوں کی تعداد میں اضافہ کر رہے ہیں. اسرائیلی اخبار” ہارٹز”نے اپنی جمعہ کی اشاعت میں ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ فلسطینی صدر محمود عباس کے زیر انتظام انٹیلی جنس حکام کا کہنا ہے کہ حال ہی میں منحرف لیڈر اور مصر میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے محمد دحلان نے اعلیٰ سطح کے سیکیورٹی اہلکاروں کو یہ پیشکش کی ہے کہ وہ اسکے ساتھ بھرتی ہو جائیں اور محمود عباس اتھارٹی کے خلاف اس کے لیے کام کریں. اخباری رپورٹ کے مطابق فلسطینی سیکیورٹی اہلکاروں نے تسلیم کیا ہے کہ انہیں محمد دحلان کی جانب سے مراسلے موصول ہوئے ہیں جن میں انہیں کہا گیا ہے کہ وہ دحلان گروپ کے ساتھ شامل ہو جائیں انہیں اسلحہ اور مالی امداد فراہم کی جائے گی. رپورٹ کے مطابق محمود عباس اور محمد دحلان کے درمیان کشیدگی حالیہ کچھ دنوں سے ایک دوسرے کے خلاف تلخ بیانات کے تبادلے کے بعد پیدا ہوئی ہے. فلسطینی صدر محمود عباس نے فتح کے باغی لیڈر کو خبردار کیا ہے کہ وہ فلسطینی اتھارٹی کے خلاف کوئی خطرناک عزائم سے گریز کرے ورنہ اس کے خلاف سخت کارروائی کی جا سکتی ہے. کشیدگی کی ایک وجہ کرپشن اور مالی بے ضابطگیاں بھی بتائی جاتی ہیں. فتح کے سابق پولیس سربراہ محمد دحلان اپنے عہدے کے دور میں بڑے پیمانے پر مالی خوردبرد میں ملوث بتائے جاتے رہے ہیں.