مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
غزہ میں شہری فا ع اعلان کیا ہے کہ جنوبی غزہ کے شہر خان یونس میں ایک تباہ شدہ گھر کے ملبے تلے سے 25 فلسطینیوں کی لاشیں نکال لی گئی ہیں جن میں صحافی ہبہ العبادلہ اور ان کی والدہ بھی شامل ہیں۔ ادارے کے مطابق یہ تمام فلسطینی قابض اسرائیل کی نسل کش جنگ کے دوران شہید ہوئے تھے۔
جاری کیے گئے مختصر بیان میں بتایا گیا کہ خان یونس میں دفاعی شہری ادارے کی ٹیموں نے فرانزک ٹیموں کے تعاون سے السطل خاندان کے گھر کے ملبے سے 25 شہدا کی لاشیں برآمد کیں۔ یہ مکان السطر الغربی کے علاقے میں واقع تھا اور اس کے ملبے تلے صحافی ہبہ العبادلہ اور ان کی والدہ کی باقیات بھی پائی گئیں۔
جمعرات کی صبح شہری دفاع ادارے نے اس گھر کے ملبے سے لاپتا افراد کی لاشیں نکالنے کے لیے کھدائی کا آغاز کیا تھا۔ یہ مکان دو برس قبل قابض اسرائیل کی نسل کش جنگ کے دوران مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا تھا۔
شہری دفاع غزہ کی پٹی میں ان فلسطینیوں کی لاشوں کی تلاش کے لیے منظم کارروائیاں انجام دے رہا ہے جو ان گھروں اور عمارتوں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں جنہیں قابض اسرائیل نے نسل کشی کے دو برسوں کے دوران مسمار کیا۔
شہری دفاع کے مطابق یہ کارروائیاں ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی کی معاونت سے انجام دی جارہی ہیں جن میں غزہ کی تعمیر نو کے لیے عرب اتھارٹی، ہنگامی کمیٹی تیز رفتار ردعمل انتظامیہ فرانزک اور عدالتی طب کی ٹیمیں وزارت صحت اور وزارت اوقاف کے علاوہ شہدا کے لواحقین اور قبائل و خاندانوں کے نمائندے بھی شریک ہیں۔
ادارے نے واضح کیا کہ اس کی ٹیمیں نہایت سادہ اور ابتدائی مشینری کے ساتھ کام کرنے پر مجبور ہیں جبکہ چند پرانی اور خستہ حال بھاری مشینیں بھی استعمال کی جارہی ہیں کیونکہ قابض اسرائیل جدید مشینری کو ملبہ ہٹانے کے لیے غزہ میں داخل ہونے سے روک رہا ہے۔
دفاعی شہری ادارے کے مطابق سنہ 10 اکتوبر کے بعد جب غزہ میں سیز فائر معاہدہ نافذ ہوا تو لاشوں کی تلاش کا عمل طویل عرصے تک غیر منظم رہا۔ اکثر اوقات عام شہری یہ کام انجام دیتے رہے کیونکہ دفاعی شہری ادارے کے پاس ملبہ ہٹانے کے لیے ضروری آلات موجود نہیں تھے۔
قابض اسرائیل اب بھی ملبے کے نیچے دبی لاشوں کو نکالنے کے لیے بھاری مشینری اور آلات کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کر رہا ہے جس کے باعث ہزاروں فلسطینی شہدا کی لاشیں ملبے تلے دفن ہیں۔
غزہ کے سرکاری میڈیا دفتر کے مطابق قابض اسرائیل نے سیز فائر معاہدے کے انسانی پروٹوکول کی کھلی خلاف ورزی کی ہے جن میں ملبے تلے دبی لاشوں کو نکالنے کے لیے درکار سینکڑوں بھاری مشینوں کے داخلے پر پابندی بھی شامل ہے۔
گذشتہ دو ماہ کے دوران قابض اسرائیل نے صرف محدود پیمانے پر بھاری مشینری غزہ میں داخل کرنے کی اجازت دی جو اپنے اسیران کی لاشوں کی تلاش کے لیے استعمال کی گئی جبکہ فلسطینی شہدا کی لاشوں کے لیے ایسی ہی مشینری کے داخلے پر پابندی برقرار رکھی گئی۔
لاشوں کی شناخت کا عمل ان فلسطینی خاندانوں کے ذریعے انجام دیا جارہا ہے جنہوں نے نسل کش جنگ کے آغاز سے اپنے پیاروں کو کھو دیا تھا۔ شناخت باقی ماندہ جسمانی نشانات یا ان کپڑوں کے ذریعے کی جارہی ہے جو شہدا نے لاپتا ہونے سے قبل پہن رکھے تھے جبکہ خصوصی طبی آلات کی عدم موجودگی اس عمل کو مزید کٹھن بنا رہی ہے۔
