غزہ ۔ مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
غزہ کی وزارتِ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر منیر البُرش نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ آزاد اور غیر جانبدار بین الاقوامی تحقیقاتی کمیشن تشکیل دے تاکہ ان بھیانک جرائم کی حقیقت سامنے آسکے جو قابض اسرائیل نے حالیہ ہفتوں کے دوران فلسطینی شہداء کی میتوں کے ساتھ انجام دیے۔
ڈاکٹر منیر البُرش نے بتایا کہ طبی عملے کے مشاہدات “الفاظ سے ماورا ہیں” اور یہ “انسانی وقار اور مُردوں کی حرمت کی صریح توہین” کے مترادف ہیں۔
انہوں نے روزنامہ فلسطین سے گفتگو میں کہا کہ ہر ایک شہید کی میت “عالمی سطح کی تفتیش کی متقاضی ہے” کیونکہ بعض میتوں پر واضح تشدد اور بکتر بند گاڑیوں سے کچلے جانے کے نشانات ہیں جبکہ کئی کو قریب سے سر یا سینے میں گولیاں مار کر میدان میں ہی پھانسی دی گئی۔
ڈاکٹر البُرش کے مطابق پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹروں نے شہداء کے جسموں پر “نازیانہ سلوک اور وحشیانہ تشدد” کے آثار دیکھے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ قتل کے بعد بھی قابض اسرائیل نے درندگی کا مظاہرہ کیا۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ وزارتِ صحت نے بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی کے ذریعے 315 میتیں وصول کیں جن میں سے صرف 89 کی شناخت ہوسکی۔ وسائل کی شدید قلت کے باعث 182 نامعلوم میتوں کو اجتماعی قبر میں دفن کرنا پڑا کیونکہ اتنی بڑی تعداد کو طویل عرصے تک محفوظ رکھنا ممکن نہ تھا۔
ڈاکٹر البُرش نے بتایا کہ بعض میتیں سر کے بغیر آئیں، کچھ کے ہاتھ بندھے ہوئے اور آنکھیں پٹیوں سے ڈھکی تھیں جبکہ کئی لاشوں پر پیشہ ورانہ جراحی کے نشانات دیکھے گئے جو انسانی اعضاء کی چوری کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ”ہم نے کئی لاشوں کے سینے کھلے پائے جن سے دل، جگر، گردے اور حتیٰ کہ قرنیے تک غائب تھے۔ یہ پہلا موقع نہیں جب قابض اسرائیل نے ایسی مکروہ کارروائیاں کی ہوں”۔
ڈاکٹر البُرش نے مزید بتایا کہ بعض شہداء کے جسموں کو درندہ صفت تربیت یافتہ کتوں سے نوچوایا گیا۔ “ہمیں ایک ایسی میت ملی جس پر درندوں کے دانتوں کے نشانات تھے، ایسا منظر کہ روح کانپ اٹھے”۔
انہوں نے بتایا کہ قابض اسرائیل نے میتیں غیر انسانی حالت میں حوالے کیں اور وزارتِ صحت کے عملے کو مجبوری میں مچھلیوں کے لیے بنے ریفریجریٹرز میں انہیں عارضی طور پر محفوظ رکھنا پڑا تاکہ خاندان اپنے پیاروں کی شناخت کر سکیں۔ “ہمارے پاس مناسب فریزر نہیں اور نہ ہی ڈی این اے کی شناخت کی سہولت باقی رہی کیونکہ قابض اسرائیل نے تمام لیبارٹریاں تباہ کر دی ہیں۔”
جب ان سے پوچھا گیا کہ تحقیقات مکمل ہونے سے پہلے میتوں کو دفن کیوں کیا گیا تو انہوں نے وضاحت کی کہ حالات کے جبر اور سہولتوں کی کمی نے ایسا کرنے پر مجبور کیا۔ تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ “شواہد اور نمونے ضائع ہونے سے فلسطینیوں کا اپنے حقوق کے ثبوت کھو دینے کا خطرہ ہے۔”
ڈاکٹر البُرش نے بتایا کہ وزارت نے محدود پیمانے پر نمونے جمع کرنے کا عمل شروع کیا ہے مگر اسے بین الاقوامی تکنیکی مدد اور ماہرین کی ضرورت ہے تاکہ ان جرائم کو سائنسی طور پر دستاویزی شکل دی جا سکے۔ “اگر تحقیقاتی آلات نہ ملے تو مجرموں کا احتساب ممکن نہیں رہے گا۔”
انہوں نے کہا کہ میتوں کی شناخت کا عمل جاری ہے اور بیشتر خاندان تصاویر، لباس، انگوٹھیوں یا دانتوں کے نشانات کے ذریعے اپنے پیاروں کو پہچان رہے ہیں۔ “بعض نے اپنے بیٹوں کی شناخت شادی کی انگوٹھیوں یا ذاتی جوتوں سے کی۔”
آخر میں ڈاکٹر منیر البُرش نے عالمی برادری، انسانی حقوق کی تنظیموں اور طبی اداروں سے فوری اپیل کی کہ وہ بین الاقوامی تحقیقاتی کمیٹیاں قائم کریں تاکہ ان جرائم کی سچائی دنیا کے سامنے آئے جن میں فلسطینیوں کے اعضاء چُرائے گئے اور شہداء کی لاشوں کی بے حرمتی کی گئی۔ انہوں نے ریڈ کراس سے مطالبہ کیا کہ وہ ان شہداء کی فہرست فراہم کرے جن میں سے 182 کو نامعلوم قبروں میں دفن کیا گیا۔
فلسطینی شہداء کی میتوں کی واپسی کی قومی مہم کے مطابق قابض اسرائیل نے جنگ بندی سے قبل 735 فلسطینیوں کی میتیں قبضے میں رکھی تھیں۔ اسرائیلی اخبار “ہآرتس” کے مطابق گذشتہ 16 جولائی کو شائع رپورٹ میں بتایا گیا کہ قابض فوج نے “سدی تیمن” کیمپ میں غزہ کے مزید 1500 فلسطینیوں کی میتیں قید کر رکھی ہیں۔
ادھر انسانی حقوق کے مراکز نے انکشاف کیا ہے کہ سنہ2023ء کے اکتوبر سے جاری نسل کشی کی جنگ میں گرفتار کیے گئے متعدد غزہ کے اسیران تشدد کے دوران شہید کر دیے گئے۔