مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
عالمی طبی تنظیم “ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈر” (ایم ایس ایف)نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں شدید سردی کے باعث بچوں کی اموات میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے، جبکہ قابض اسرائیل کی جانب سے انسانی امداد کی آمد پر عائد پابندیاں بدستور برقرار ہیں۔ تنظیم نے فوری طور پر امدادی سامان کی ترسیل میں بڑے پیمانے پر اضافے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ فلسطینی عوام مسلسل آنے والے موسمی دباؤ کا مقابلہ کر سکیں۔
تنظیم نے میڈیا کو جاری بیان میں بتایا کہ گذشتہ روزغزہ کے جنوب میں واقع ناصر ہسپتال میں 29 دن کا ایک شیر خوار بچہ جاں بحق ہو گیا، جو بچوں کے اس وارڈ میں داخل ہوا تھا جسے اطباء بلا حدود کی ٹیمیں سہارا فراہم کر رہی ہیں۔ تنظیم کے مطابق بچے کو شدید حد تک جسمانی درجہ حرارت میں کمی کا سامنا تھا اور دو گھنٹوں کی بھرپور کوششوں کے باوجود اس کی جان نہ بچائی جا سکی۔
بیان میں ناصر ہسپتال کے نرسنگ سپروائزر بلال ابو سعدہ کے حوالے سے کہا گیا کہ بچے اس لیے جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں کیونکہ انہیں زندگی بچانے کے بنیادی ترین وسائل سے محروم رکھا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شیر خوار بچے انتہائی شدید سردی کی حالت میں ہسپتال لائے جاتے ہیں اور ان کی حیاتیاتی علامات اتنی کمزور ہوتی ہیں کہ زندگی برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔
بلال ابو سعدہ نے مزید کہا کہ ہم جتنی بھی کوششیں کر لیں وہ اکثر ناکافی ثابت ہوتی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ جنگ ختم ہو چکی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ لوگ آج بھی زندہ رہنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔
اطباء بلا حدود نے خبردار کیا کہ موسم سرما کی سختی اور پہلے سے تباہ حال رہائشی حالات مل کر صحت کے خطرات کو مزید سنگین بنا رہے ہیں۔ تنظیم کے مطابق اس کی طبی ٹیمیں سانس کی بیماریوں کے کیسز میں مسلسل اضافہ ریکارڈ کر رہی ہیں اور توقع ہے کہ یہ صورتحال پورے موسم سرما میں مزید بگڑتی جائے گی جو پانچ سال سے کم عمر بچوں کے لیے نہایت خطرناک ہے۔
موجودہ موسمی دباؤ کے حوالے سے تنظیم نے بتایا کہ لاکھوں فلسطینی اب بھی عارضی اور خستہ حال خیموں میں رہنے پر مجبور ہیں جو بارش کے پانی سے بھر جاتے ہیں، جبکہ غزہ شدید بارشوں اور طوفانی ہواؤں کی زد میں ہے۔ تنظیم نے واضح کیا کہ یہ حالات بالخصوص بچوں کے لیے ناقابل برداشت اذیت کا سبب بن رہے ہیں۔
اطباء بلا حدود نے قابض اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری اور وسیع پیمانے پر انسانی امداد کی غزہ میں رسائی کی اجازت دے، کیونکہ قابض اسرائیل خوراک، ادویات اور طبی سامان کی مناسب مقدار کے داخلے میں رکاوٹ ڈال رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں غزہ کے تقریباً 24 لاکھ فلسطینیوں کی زندگی پہلے ہی تباہ کن حالات سے دوچار ہے۔
قابل ذکر ہے کہ پیر کی شام سے غزہ دوسرے موسمی دباؤ کی لپیٹ میں ہے جو ایک ہفتے کے دوران آیا ہے۔ اس سے قبل پہلے قطبی موسمی دباؤ بپرون کے باعث 17 فلسطینی شہید ہوئے، جن میں 11 افراد 13 سے زائد متاثرہ عمارتوں کے منہدم ہونے سے شہید ہوئے جبکہ تین افراد شدید سردی کے باعث جان کی بازی ہار گئے۔ اس کے علاوہ تقریباً 53 ہزار خیمے متاثر اور زیر آب آ گئے، یہ اعداد و شمار سرکاری ذرائع نے فراہم کیے ہیں۔
ادھر بے گھر فلسطینیوں کے ہزاروں خیموں کے ڈوبنے اور خستہ حال عمارتوں کے گرنے کے خدشات بڑھتے جا رہے ہیں، جو اس نسل کشی کا نتیجہ ہیں جو قابض اسرائیل نے سنہ 8 اکتوبر 2023ء سے دو برس کے دوران جاری رکھی۔ اس دوران 70 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوئے اور ایک لاکھ 71 ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے۔
اگرچہ 10 اکتوبر 2025ء سے نافذ سیز فائر معاہدے کا مقصد اس نسل کشی کا خاتمہ تھا، مگر قابض اسرائیل مسلسل اس معاہدے کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے، جس کے نتیجے میں سینکڑوں فلسطینی شہری شہید اور زخمی ہو چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ قابض اسرائیل انسانی امداد اور رہائشی سامان کی فراہمی سے متعلق انسانی پروٹوکول کی بھی کھلی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
