مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر سرگرم کارکنوں نے ایسی ویڈیوز نشر کی ہیں جو جنوبی غزہ کے شہر رفح میں قابض اسرائیل کی فوج کی جانب سے بڑے پیمانے پر مکانات اڑانے کی کارروائیوں کو دستاویزی شکل دیتی ہیں۔ یہ مناظر اس حقیقت کو بے نقاب کرتے ہیں کہ سیز فائر کے نفاذ کے باوجود رہائشی محلوں کی منظم تباہی کا سلسلہ جاری ہے۔
فلسطینی صحافی یونس الطیراوی جن کی تخصص قابض اسرائیلی فوجیوں کے اکاؤنٹس کی نگرانی اور ان کی خلاف ورزیوں کی دستاویز بندی ہے نے یہ ویڈیو شائع کی اور اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کرسمس کی رات میں ہے اور قابض اسرائیلی فوج آج بے گھر فلسطینی خاندانوں کے گھروں کو دھماکوں سے اڑا رہی ہے۔ یہ اس بات کی تلخ یاد دہانی ہے کہ سیز فائر کو نافذ ہوئے دو ماہ سے زائد گزر چکے ہیں۔
الجزیرہ نیٹ ورک کی ڈیجیٹل تصدیقی ٹیم کے مطابق ویڈیو کی جغرافیائی شناخت انتہائی درست انداز میں کی گئی۔ اس سے ثابت ہوا کہ دھماکے رفح شہر کے شمال میں الزہور محلہ میں پیش آئے جہاں مخصوص جغرافیائی نقاط پر کارروائی کی گئی۔ تصدیق سے یہ بھی سامنے آیا کہ ویڈیو پہلی مرتبہ گذشتہ شب نصف شب کے بعد شائع ہوئی تاہم دھماکوں کے عین وقت کی حتمی تصدیق ممکن نہ ہو سکی۔
تاہم تیرہ سے چوبیس دسمبر کے درمیان سیٹلائٹ تصاویر کے جائزے سے واضح ہوا کہ علاقے میں قابض اسرائیلی فوجی گاڑیوں کی غیر معمولی موجودگی رہی۔ ان تصاویر میں بڑے پیمانے پر زمین کی کھدائی اور مسماری کے آثار نمایاں ہیں جو ویڈیو میں دکھائی دینے والے مناظر سے مکمل طور پر مطابقت رکھتے ہیں۔ اس سے یہ امکان مزید مضبوط ہوتا ہے کہ یہ کارروائیاں گذشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران انجام دی گئیں۔
غزہ میں موجود صحافیوں کی فیلڈزرپورٹس بھی اس کی تائید کرتی ہیں جنہوں نے گذشتہ شب گیارہ بجے کے قریب شمالی رفح میں زور دار دھماکوں کی آوازیں سننے کی تصدیق کی۔ اسی وقت خان یونس اور مشرقی غزہ شہر میں بھی اسی نوعیت کی مسماری کی کارروائیاں جاری تھیں۔
اسی تناظر میں ایک قابض اسرائیلی صحافی نے شمالی غزہ میں ہونے والی منظم تباہی کے نئے مناظر نشر کیے جن میں بالخصوص تل الزعتر محلہ اور جبالیا کیمپ میں ہونے والی مکمل بربادی نمایاں ہے۔
ویڈیو میں قابض اسرائیلی فوجیوں کا ایک گروہ ایک صحافتی وفد کے ہمراہ دکھائی دیتا ہے۔ اس موقع پر اسرائیلی نامہ نگار نے کہا کہ ہم جبالیا محلہ میں ہیں اور آپ میرے پیچھے تباہی دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں تقریباً ہر چیز مکمل طور پر تباہ ہوچکی ہے۔ یہ وہ محلہ ہے جو سدیرت شہر سے محض سات کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور یہاں صرف ایک ہسپتال اب بھی کھڑا ہے۔
ڈیجیٹل جغرافیائی تجزیے سے معلوم ہوا کہ صحافی اور فوجی ایک نئی قائم کردہ فوجی چوکی کے اندر موجود تھے جو قابض اسرائیلی فوج نے تل الزعتر کی بلندی پر انڈونیشی ہسپتال کے اطراف قائم کی ہے۔
تجزیے سے یہ بھی واضح ہوا کہ ویڈیوز میں انڈونیشی ہسپتال اور العودہ ہسپتال کے بچے کھچے ڈھانچے ہی ایسے نشانات ہیں جو مکمل طور پر مسمار کیے گئے ماحول میں کسی حد تک قائم نظر آتے ہیں۔ مہینوں تک جاری رہنے والی شدید دھماکہ خیز کارروائیوں نے پورے علاقے کو ہموار کر دیا ہے۔ اس وسیع تباہی کے باعث بیت لاہیا شہر کی سرحدیں براہ راست نمایاں ہو گئی ہیں جو جنگ سے قبل آبادی کی کثافت کے باعث ممکن نہ تھا۔
قابض اسرائیل کی فوج غزہ شہر کے مختلف رہائشی محلوں بالخصوص الشجاعیہ اور التفاح میں مسماری کا عمل مسلسل جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسی طرح شمالی غزہ میں جبالیا کے مشرقی علاقوں اور جنوبی حصوں میں خان یونس اور رفح میں بھی گھروں کو منہدم کیا جا رہا ہے۔ یہ تمام کارروائیاں اس سیز فائر معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہیں جس کا اعلان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ منصوبے کے تحت کیا گیا تھا۔
