مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
وادی اردن کی سرزمین پر آج سچ بولنا سب سے بڑا جرم بن چکا ہے۔ یہاں کیمرہ اٹھانا، تصویر بنانا اور صہیونی دشمن کے ظلم کو دنیا کے سامنے لانا دہشت گردی قرار دے دیا جاتا ہے۔ اسی تلخ حقیقت کی جیتی جاگتی تصویر فلسطینی نوجوان اور انسانی حقوق کے کارکن ایمن غریب ہیں، جن کا واحد ہتھیار ایک کیمرہ اور ایک بے خوف ضمیر تھا۔
قابض اسرائیل فلسطینی صحافیوں اور سماجی کارکنوں کو خاموش کرانے کے لیے انتظامی قید جیسی ظالمانہ پالیسی کو پوری بے رحمی سے استعمال کر رہا ہے۔ ایمن غریب جو وادی اردن میں جبری بے دخلی کے خطرے سے دوچار فلسطینی قصبات پر ڈھائے جانے والے مظالم کو دستاویزی شکل دیتے رہے، گذشتہ ایک ماہ سے مجد جیل کی تنگ و تاریک کوٹھڑی میں بند ہیں۔ ان پر الزام یہ عائد کیا گیا ہے کہ وہ ریاست کے خلاف اشتعال انگیزی کرتے ہیں اور علاقے کی سکیورٹی کو خطرے میں ڈالتے ہیں، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ صرف فلسطینی عوام کے زخم دکھاتے تھے۔
ظالمانہ قید میں توسیع
ایمن کے قریبی ذرائع بتاتے ہیں کہ گرفتاری کو پورا ایک ماہ گزر چکا ہے مگر آج تک ان کے خلاف کوئی واضح فردِ جرم پیش نہیں کی گئی۔ اس کے باوجود قابض حکام نے اسی ہفتے ان کی انتظامی قید میں مزید پانچ ماہ کی توسیع کر دی۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ ایمن غریب کو نشانہ بنایا گیا ہو، اس سے قبل بھی انہیں بارہا گرفتار کیا گیا اور کچھ عرصے بعد بغیر کسی الزام کے رہا کر دیا گیا، مگر ہر بار مقصد ایک ہی رہا، انہیں خاموش کرانا۔
شاکاک کی دھمکی جو حقیقت بن گئی
ایمن کے دوستوں کے مطابق آخری گرفتاری سے قبل قابض اسرائیل کے جنرل سکیورٹی ادارے “شاباک” کے دو اہلکاروں نے انہیں فون کیا۔ ان کی آواز میں دھمکی تھی اور لہجے میں نفرت۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایمن کی سرگرمیوں اور اس کی مبینہ اشتعال انگیزی سے تنگ آ چکے ہیں اور اسے جیل میں ڈال دیا جائے گا۔ کچھ ہی دیر بعد یہ دھمکی حقیقت بن گئی۔
انتظامی قید وہ ہتھکنڈا ہے جس کے تحت کسی انسان کو بغیر مقدمے، بغیر الزام اور بغیر صفائی کا حق دیے برسوں تک قید رکھا جا سکتا ہے۔ انسانی حقوق کی درجنوں تنظیمیں اس طریقۂ کار کو غیر انسانی اور ظالمانہ قرار دیتی ہیں اور کہتی ہیں کہ اس کا استعمال صرف انتہائی غیر معمولی حالات میں ہونا چاہیے، مگر قابض اسرائیل اسے فلسطینیوں کے خلاف ایک معمول کی سزا بنا چکا ہے۔
گرفتاری کی داستان خود سفاکیت کی ایک لرزہ خیز مثال ہے۔ ایمن کے بھائی امین غریب بتاتے ہیں کہ 17 نومبر کو ایمن بدوی تجمع فصائل کے دورے پر تھے۔ وہاں ایک یہودی آبادکار نے خود کو بستی کا محافظ ظاہر کرتے ہوئے انہیں روک لیا اور حراست میں لے لیا۔ کچھ ہی دیر بعد قابض فوج کو بلا لیا گیا۔ فوجیوں نے ایمن کو تین گھنٹے تک اسی جگہ روکے رکھا، پھر وہ اچانک غائب ہو گئے۔ خاندان پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ چھ دن تک کسی کو معلوم نہ ہو سکا کہ ایمن گرفتار ہیں، اغوا ہو چکے ہیں یا کسی نامعلوم عقوبت خانے میں ڈال دیے گئے ہیں۔
چھ دن بعد پہلی خبر آئی، مگر وہ خبر دل دہلا دینے والی تھی۔ وکیل نے بتایا کہ ایمن کو سمرہ کیمپ میں تین دن تک ہتھکڑیاں لگا کر زمین پر ڈالے رکھا گیا۔ کھانے کو کچھ دیا گیا، نہ پانی کا ایک گھونٹ، نہ سردی سے بچنے کے لیے کوئی کمبل۔ تشدد اس قدر شدید تھا کہ ان کی حالت بگڑ گئی اور بالآخر انہیں ہسپتال منتقل کرنا پڑا۔
ظلم کا یہ سلسلہ یہاں ختم نہ ہوا۔ ایمن کی گرفتاری کے چند دن بعد جنوبی طوباس کے قصبہ طمون پر قابض فوج نے حملہ کیا۔ اسی دوران فوجی ایمن کے گھر میں گھس آئے اور اسے تین دن کے لیے فوجی چھاؤنی میں تبدیل کر دیا۔ جب وہ واپس گئے تو گھر کھنڈر بن چکا تھا۔ سامان توڑ دیا گیا، دیواریں خراب کر دی گئیں اور یہاں تک کہ ایمن کی گاڑی کو جلانے کی بھی کوشش کی گئی۔ یہ سب ایک ہی پیغام تھا کہ جو سچ دکھائے گا اس کا گھر بھی محفوظ نہیں رہے گا۔
امین غریب بتاتے ہیں کہ ان کے بھائی کو یہودی آبادکاروں کی جانب سے مسلسل اشتعال انگیزی اور دھمکیوں کا سامنا تھا۔ آبادکار ان کی تصاویر اپنے پلیٹ فارمز پر شائع کرتے، انہیں محرک قرار دیتے اور اس لیے نشانہ بناتے کہ وہ فلسطینی عوام کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر ان کی زمینوں کا دفاع کرتے تھے اور ان پر ہونے والے مظالم کو دنیا تک پہنچاتے تھے۔
ایمن غریب چار بچوں کے باپ ہیں۔ ان کا سب سے بڑا بیٹا تیرہ برس کا ہے اور سب سے چھوٹی بچی ابھی گود میں کھیلنے کی عمر میں ہے۔ مگر قابض اسرائیل کے لیے باپ کی ذمہ داری معنی رکھتی ہے اور نہ بچوں کے آنسو۔ ان کے نزدیک سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ کوئی فلسطینی سر اٹھا کر ظلم کے خلاف گواہی دے۔
وادیٔ اردن میں کام کرنے والے صحافی ایمن غریب کو اس علاقے کا پہلا اور بنیادی حوالہ قرار دیتے ہیں۔ صحافی حافظ ابو صبرہ کہتے ہیں کہ ایمن وہ دروازہ تھے جس کے بغیر وادیٔ اردن میں کوئی صحافتی کام ممکن نہ تھا۔ انہیں علاقے کے جغرافیہ کا مکمل علم تھا اور وہ ہر چھوٹے بڑے واقعے سے باخبر رہتے تھے۔
صحافیوں کے محافظ
حافظ ابو صبرہ بتاتے ہیں کہ ایمن کی سب سے بڑی خوبی ان کی پیش قدمی تھی۔ وہ صحافیوں کے فون کا انتظار نہیں کرتے تھے بلکہ خود کیمرے اٹھا کر انہیں واقعے کے مرکز تک لے جاتے۔ وہ لوگوں کے دکھ درد کو دنیا کے سامنے لانے کے لیے بے چین رہتے اور اسی لیے وادیٔ اردن میں میڈیا کوریج کی روح بن چکے تھے۔
وہ صرف رابطہ کار نہیں تھے بلکہ میزبان اور محافظ بھی تھے۔ جنوری میں قصبہ طمون پر ہونے والے ایک حملے کے دوران انہوں نے محصور صحافیوں کے لیے محفوظ رہائش کا بندوبست کیا۔ اپنی ذاتی گاڑی میں انہیں دشوار گزار پہاڑی راستوں سے گزارا، ان کی ہر ضرورت پوری کی اور صرف ایک مقصد سامنے رکھا کہ محاصرے کے باوجود طمون کے مظلوم عوام کی آواز دنیا تک پہنچے۔
ایمن غریب سیاسی اور میدانی شعور رکھنے والے کارکن ہیں ۔ وہ ان چند آوازوں میں شامل تھے جنہوں نے سات اکتوبر سنہ 2023ء سے پہلے ہی وادیٔ اردن میں جبری بے دخلی کے منصوبوں سے خبردار کیا تھا، مگر قابض اسرائیل نے ان کی آواز کو دبانے کے لیے زنجیریں تیار کر رکھی تھیں۔
ایمن کی رہائی کے مطالبے میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے شرکا کہتے ہیں کہ یہ مقدمہ سیاسی انتقام کی کھلی مثال ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایمن کا اصل جرم یہی تھا کہ وہ کیمرے کے ذریعے قابض اسرائیل کی سفاکیت کو سوشل میڈیا اور عالمی ذرائع ابلاغ تک پہنچا رہے تھے۔
انسانی حقوق کے کارکنوں نے مطالبہ کیا ہے کہ ایمن غریب کو فوری طور پر رہا کیا جائے یا ان کے خلاف واضح فردِ جرم عائد کر کے منصفانہ عدالتی کارروائی کی جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایمن کو نشانہ بنانا دراصل ان تمام فلسطینی آوازوں کو خاموش کرانے کی کوشش ہے جو قابض اسرائیل کے جرائم کو بے نقاب کر رہی ہیں۔
اعداد و شمار خود اس ظلم کی گواہی دے رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی رپورٹس کے مطابق قابض اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف انتظامی قید کے استعمال میں خطرناک حد تک اضافہ کر دیا ہے۔ اسرائیلی انسانی حقوق تنظیم ہموکید کے مطابق جنگ کے دوران انتظامی قیدیوں کی تعداد سنہ 2023ء میں 7 اکتوبر سے پہلے کے مقابلے میں تین گنا بڑھ چکی ہے اور دسمبر 2025ء تک یہ تعداد تقریباً 3350 تک پہنچ گئی ہے۔ یہ تمام قیدی بغیر کسی فردِ جرم کے سلاخوں کے پیچھے ہیں۔
ایمن غریب آج قید میں ہیں، مگر ان کی کہانی قید نہیں ہو سکی۔ ان کا کیمرہ خاموش نہیں ہوا، وہ آج بھی وادیٔ اردن کی مٹی سے یہ صدا بلند کر رہا ہے کہ سچ کو زنجیروں میں جکڑا جا سکتا ہے، مگر دفن نہیں کیا جا سکتا۔
