اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) نے اسرائیلی وزارت داخلہ کی منظوری اور صہیونی فوج اور پولیس کے تحفظ کے تحت مقبوضہ بیت المقدس میں نکالے گئے”یہودیوں کے احتجاجی مارچ” کو فلسطینی اتھارٹی اور صہیونی حکومت کے درمیان جاری مذاکرات کی ناکامی قرار دیا ہے۔
اتوار کے روزدمشق میں حماس کے دفتر سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی صدر باراک حسین اوباما کے خصوصی ایلچی برائے مشرق وسطیٰ جارج میچل کے دورہ فلسطین کے دوران یہودی آباد کاروں کے احتجاجی مظاہرے، بیت المقدس میں یہودی آبادکاری جاری رکھنے کا اسرائیلی اصرار اور فلسطین میں اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کا جاری رہنا اس امرکی واضح دلیل ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کےدرمیان نام نہاد امن مذاکرات مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ مقبوضہ بیت المقدس میں یہودیت کے فروغ کی صہیونی سرگرمیاں اتھارٹی کے مذاکرات کے سراب کی جانب دوڑ لگانے، اسرائیل سے سیکیورٹی تعاون، مجاہدین کے خلاف آپریشن، فلسطینی مظاہرین کو ان کے جائز حقوق سے محروم کرنے اور آزادی اظہار رائے پر قدغنیں لگانے کا نتیجہ ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ مغربی کنارے اور مقبوضہ بیت المقدس میں یہودی آباد کاروں اور فلسطینی شہریوں کے درمیان مسلسل جھڑپیں اسرائیل اور فلسطین اتھارٹی کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانےکے دعوے کی ناکامی کا ثبوت ہیں۔
حماس نے مقبوضہ بیت المقدس، مغربی کنارے اور مقبوضہ فلسطین کے 1948ء کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے ان شہریوں کے کردارکی تعریف کی جو قبلہ اول اور بیت المقدس کے تحفظ کے لیے فرنٹ لائن کا کردار ادا کررہے ہیں۔ بیان میں کہا گیا کہ بیت المقدس کے شہریوں نے محمود عباس کی قیادت میں فلسطینی اتھارٹی کے اقدامات اور نام نہاد امن مذاکرات کی سازش کو مسترد کرکے ثابت کیا ہے کہ فلسطینی عوام قبلہ اول کے تحفظ اور اپنے حقوق کے حصول کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کریں گے۔
واضح رہے کہ گذشتہ روز مقبوضہ بیت المقدس کے علاقے سلوان میں فلسطینی شہریوں اور اسرائیلی فوج اور پولیس کے حمایت یافتہ یہودی آباد کاروں کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں، جن میں کم ازکم پانچ افراد زخمی ہو گئے، زخمیوں میں ایک امدادی ادارے کا اہلکار بھی شامل ہے جو قابض فوج کی مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے کی گئی فائرنگ کے نتیجے میں گولی لگنے سے زخمی ہوا۔