Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

غزہ

روزگار خطرے میں، غزہ میں انروا عملے کا بھرپور احتجاج

مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن

غزہ جو پہلے ہی قابض اسرائیل کی جنگ سفاکیت، محاصرے اور تباہی کے بوجھ تلے کراہ رہا ہے، آج وہاں انسانی خدمت کے علمبردار ادارے “انروا” کے ملازمین بھی شدید ناانصافی کا شکار دکھائی دیے۔ فلسطینی مہاجرین کے لیے قائم اقوام متحدہ کے ادارے “انروا” میں کام کرنے والے درجنوں ملازمین نے جمعرات کے روز غزہ شہر میں اپنے علاقائی دفتر کے مغربی دروازے کے سامنے احتجاجی دھرنا دیا۔ یہ احتجاج اس انتظامی ظلم کے خلاف تھا جس کے تحت متعدد ملازمین کو بغیر کسی قانونی جواز کے ملازمتوں سے برطرف کر دیا گیا۔

احتجاج میں ان درجنوں متاثرہ ملازمین نے شرکت کی جنہیں حالیہ عرصے میں نوکریوں سے نکالا گیا، جبکہ ان کے ساتھ ایسے ملازمین کے اہل خانہ بھی شریک ہوئے جنہیں جنگ کے دوران سفر کرنے کے بعد برطرف کر دیا گیا۔ کسی نے قابض اسرائیل کی بمباری سے جان بچانے کے لیے غزہ چھوڑا، تو کوئی علاج کی غرض سے باہر گیا، مگر واپسی پر انہیں روزگار سے محرومی کی سزا دے دی گئی۔ اس فیصلے نے انہیں اور ان کے خاندانوں کو ایسے وقت میں بے سہارا کر دیا جب پورا غزہ شدید انسانی المیے سے دوچار ہے۔

احتجاج کے دوران یونین کی جانب سے “انروا” کے دفتر کے سامنے ایک احتجاجی کیمپ لگایا گیا، جبکہ ملازمین نے مرکزی دروازے پر بینرز آویزاں کیے جن پر دل دہلا دینے والے سوالات درج تھے۔ بینرز پر لکھا تھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ملازمین پر ڈھائے گئے ظلم کا خاتمہ کیا جائے اور سفر کرنے والے ملازمین کو دوبارہ کام پر بحال کیا جائے۔ ایک اور بینر پر درج تھا کہ ملازمین کی تنخواہیں کوئی احسان نہیں بلکہ ان کا حق ہیں، جبکہ ایک سوال نے ہر ضمیر کو جھنجھوڑ دیا کہ کہاں ہے انسانیت، اے عالمی امدادی ادارے؟

احتجاجی مظاہرے میں وہ ملازمین ایک قطار میں کھڑے نظر آئے جنہیں حال ہی میں برطرف کیا گیا تھا، ان کے شانہ بشانہ وہ خاندان بھی موجود تھے جن کے کفیل جنگ کے دنوں میں علاج یا جان بچانے کی خاطر غزہ سے باہر گئے اور واپسی پر روزگار سے محروم کر دیے گئے۔ یہ سب اس وقت ہو رہا ہے جب غزہ میں زندگی کی بنیادی ضروریات ناپید اور حالات بدترین ہو چکے ہیں۔

اس موقع پر “انروا” میں عرب ملازمین کی یونین کے سربراہ مصطفیٰ الغول نے ایک پرجوش اور درد بھرا بیان دیا۔ انہوں نے برطرفیوں کے فیصلے کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ “انروا” انتظامیہ نے ملازمین کو بغیر کسی حق کے نوکریوں سے نکالا۔ انہوں نے ان اقدامات کو ان کارکنوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے مترادف قرار دیا جنہوں نے مشکل ترین حالات میں بھی اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔

مصطفیٰ الغول نے ان برطرفیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سنگین انسانی اثرات کی جانب توجہ دلائی اور کہا کہ برطرف کیے گئے ملازمین اور ان کے خاندان اب ایسے وقت میں بغیر کفیل ہو چکے ہیں جب غزہ اندرون اور بیرونِ غزہ ایک تباہ کن جنگ کی لپیٹ میں ہے۔ تاہم انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ انروا کے کردار یا فلسطینی مہاجرین کے لیے اس کے پروگراموں کو کمزور کرنے کی کسی بھی کوشش کو قبول نہیں کیا جائے گا۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ برطرف کیے گئے ملازمین کی تنخواہیں بحال کی جائیں اور ایک شفاف تحقیقات کے ذریعے معاملے کو دیکھا جائے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ماضی میں کبھی کسی ملازم کو بغیر ثابت شدہ الزامات کے برطرف نہیں کیا گیا۔ ساتھ ہی انہوں نے سفر کرنے والے ملازمین کی تنخواہیں بحال کرنے، تمام ظالمانہ اقدامات ختم کرنے اور حقوق ان کے اصل حقداروں کو واپس کرنے کا مطالبہ کیا۔

مصطفیٰ الغول نے کہا کہ جو ملازمین غزہ سے باہر گئے وہ کسی سیر و تفریح کے لیے نہیں گئے تھے بلکہ اپنی جان بچانے نکلے تھے۔ ان میں کینسر کے مریض شامل ہیں جو بیرونِ ملک علاج کروا رہے ہیں، ایسے والدین بھی ہیں جو اپنے بچوں یا قریبی رشتہ داروں کے علاج کے لیے گئے، اور وہ ملازمین بھی شامل ہیں جو باقاعدہ منظور شدہ رخصت پر تھے۔ ان میں سے کئی آج انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

انہوں نے زور دیا کہ انروا انتظامیہ ملازمین کی یونین کے ساتھ مکمل اور سنجیدہ رابطہ بحال کرے اور ایسے تمام معاملات حل کیے جائیں جو کارکنوں کی عزت اور حقوق کو مجروح کرتے ہیں۔ انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ یونین اپنی جدوجہد تمام قانونی اور رسمی ذرائع سے جاری رکھے گی یہاں تک کہ تمام ملازمین دوبارہ اپنے کام پر بحال ہو جائیں اور اس ظالمانہ قانون کو ختم کر دیا جائے جسے غیر معمولی رخصت کا قانون کہا جا رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے تفویض کا تحفظ

اس موقع پر جنوبی گورنریوں میں کیمپوں کے ڈائریکٹر جنرل عادل منصور نے محکمۂ امورِ مہاجرین کی جانب سے خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ ملازمین کی برطرفی انروا کے بنیادی مشن پر براہ راست ضرب ہے جو مہاجرین کی خدمت اور ملازمین کے حقوق کے تحفظ پر قائم ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ برطرف کیے گئے ملازمین کو فوری طور پر بحال کیا جائے اور انہیں پہنچنے والے نقصانات کا ازالہ کیا جائے۔

عادل منصور نے انروا کے کمشنر جنرل سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی مکمل ذمہ داریاں ادا کریں اور انروا اور اس کے ملازمین کے دفاع میں واضح اور اعلانیہ موقف اختیار کریں۔ انہوں نے تعلیمی اور نفسیاتی رہنمائی جیسے اہم پروگراموں کی معطلی کو فوری طور پر روکنے، تمام معطل ملازمین کو بحال کرنے اور ان کے مالی واجبات بلا تاخیر ادا کرنے کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ انروا کے اقوام متحدہ کے تفویض کو کسی بھی دباؤ، بلیک میلنگ یا سیاسی استعمال سے محفوظ رکھا جائے اور ملازمین کی یونین کے ساتھ سنجیدہ اور شفاف مکالمہ شروع کیا جائے، نہ کہ فیصلے مسلط کرنے کی پالیسی اپنائی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ احتجاج حق اور وقار کی آواز ہے، ایک انسانی پیغام کے دفاع کی جدوجہد ہے اور ان ملازمین کی خاطر ہے جنہوں نے شہداء پیش کیے ہیں اور آج بھی خدمت کے میدان میں ثابت قدم ہیں۔

آخر میں انروا میں عرب ملازمین کی یونین نے اعلان کیا کہ نصب کیا گیا احتجاجی خیمہ ایک علامتی دھرنا ہے، تاہم اگر ادارے نے ملازمین کے مطالبات تسلیم نہ کیے اور ان ظالمانہ فیصلوں سے پیچھے نہ ہٹا تو احتجاجی سرگرمیوں میں مرحلہ وار شدت لائی جائے گی۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan