مصری صدر حسنی مبارک کے اختیارات منتقلی کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے مصری عوام کی بڑی تعداد آج ’’جمعہ رخصتی‘‘ مناتے ہوئے صدارتی محل، التحریر اسکوائر اور سرکاری ٹی وی کے دفتر کے باہر جمع ہوگئی ہے۔
حسنی مبارک کی جانب سے فوری طور پر اقتدار نہ چھوڑنے کے اعلان کے بعد مصر کے حالات شدید کشیدہ ہو گئے ہیں اور مارشل لاء لگنے کی چہ مگوئیاں شروع ہو گئی ہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق متعدد فوجی اہلکار بھی عوام کے ساتھ احتجاج میں شریک ہو گئے ہیں۔
نماز جمعہ کے بعد لاکھوں لوگوں التحریر اسکوائر جمع ہوئے اور حسنی مبارک کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ گزشتہ رات حسنی مبارک نے مصری عوام سے اپنے خطاب میں تمام اختیارات نائب صدر عمر سلیمان کو منتقل کرنے کے اعلان کے ساتھ ساتھ ستمبر سے قبل مستعفی نہ ہونے کا اعلان کیا تھا جس سے دو ہفتوں سے حسنی مبارک کی رخصتی کے مطالبے بھی سڑکوں پر آئی عوام میں سخت غصے کی لہر دوڑ گئی تھی۔
اطلاعات کے مطابق جمعہ کی نماز کے بعد لگ بھگ تین ہزار افراد نے صدارتی محل کا رخ کیا اور صدر کے خلاف نعربے بازی کی۔ اسی طرح ہزاروں افراد سرکاری ٹی وی کے ہیڈ کوارٹر کے باہر بھی جمع ہو کر یہ مطالبات پیش کر رہے ہیں۔
سیاسی سرگرم کارکن محمد عبد الحمید نے عرب ٹی وی چینل ’’الجزیرہ‘‘ کو بتایا کہ صدارتی محل کے اطراف زبردست رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں اور اس کی حفاظت کے لیے سیکڑوں گارڈ باہر کھڑے ہیں۔
دوسری جانب مصری فوج کی سپریم کمانڈ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ تیس سال سے لگی ایمرجنسی اٹھا لی جائے گی جیسے ہی حالات بہتر ہوں گے۔اس کے علاوہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ستمبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات آزاد اور شفاف ہوں گے، آئین میں تبدیلی کی جائے گی۔فوج نے بیان میں زور دیا ہے کہ سرکاری دفاتر میں کام دوبارہ شروع ہونا چاہیے اور زندگی معمول کی جانب بڑھے تاکہ لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کی جا سکے۔