مغربی کنارے کے شہر نابلس میں مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ انتہا پسند صہیونیوں نے شہر میں حضرت یوسف علیہ السلام کی قبر والے علاقے پر دھاوا بولا دیا۔ دراندازی کی اس اشتعال انگریز کارروائی میں انہیں قابض سیکیورٹی فورس کی مکمل حمایت حاصل تھی اور ان کی نگرانی میں ہی انہوں نے وہاں تلمودی مذہبی شعائر ادا کئے۔ عینی شاہدوں نے بتایا کہ متعدد بسوں پر مشتمل قافلے مذکورہ علاقے میں داخل ہوئے۔ اس علاقے میں ایک سال کے دوران سرکاری سرپرستی میں کی جانے سب سے بڑی دراندازی تھی۔ دراندازی کا ارتکاب کرنے والے یہودی جمعرات کی صبح تک علاقے میں موجود رہے۔ بعد ازاں اسرائیلی فوجی اور غاصب یہودیوں کے قافلے ایک ساتھ علاقے سے نکل گئے۔ انتفاضہ اقصی کے بعد غاصب یہودیوں کی حضرت یوسف علیہ السلام کی قبر کی زیاراتوں میں توقف آ گیا تھا تاہم بعض یہودی انفرادی طور پر مقام مذکورہ پر آتے تھے۔ انتفاضہ اقصی کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ انتہا پسند یہودیوں کو اجتماعی طور پر ایسی یاترا منظم کرنے کا موقع ملا۔ اس کی وجہ دراصل محمود عباس ملیشیا کے وہ اقدامات ہیں کہ جن کے ذریعے وہ ساری سرکاری مشنیری کو مزاحمت ختم کرنے کے لئے استعمال کر رہے ہیں اور اس سے حوصلہ پا کر یہودیوں نے اس مقدس مقام کے بے حرمتی کی جرات کی۔ قابض یہودیوں نے کئی ماہ پہلے ایک تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا تھا کہ وہ ایک نہ ایک دن قبر یوسف کے قریب آئیں گے۔ انہوں نے حوارہ کے مقام پر قبر یوسف کے پاس آنے کے حق میں مظاہرے بھی منظم کئے کیونکہ انہیں علاقے میں موجود عباس ملیشیا سے کسی قسم کا خوف نہیں رہا تھا۔