مقبوضہ بیت المقدس کو یہودیت میں تبدیل کرنے کے صہیونی منصوبوں میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے. تازہ دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ بیت المقدس کی یہودی بلدیہ اور شہر کو یہودیت میں تبدیل کرنے میں سرگرم تنذظیموں نے مسجد اقصیٰ کی قدیم اور تاریخی دیوار براق کے احاطے کو یہودیت میں تبدیل کرنے کے ایک مشترکہ لیکن خفیہ منصوبے پر کام شروع کیا ہے۔ فلسطین کے عربی اخبار القدس کی جمعہ کی اشاعت میں معروف وکیل قیس ناصر کا ایک مضمون شائع ہوا ہے، جس میں فاضل مضمون نگار نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیلی بلدیہ اور شہر کی پلاننگ اینڈ بلڈنگ اتھارٹی نے مل کر چند ماہ قبل دیوار براق کے احاطہ کو یہودیت میں تبدیل کرنے کے لیے کمیٹی تشکیل دی، اس کمیٹی نے تشکیل کے بعد دیوار کے قریب مختلف تعمیراتی منصوبوں کا خفیہ طور پر سنگ بنیاد بھی رکھ دیا ہے۔ قیس ناصر کا کہنا ہے کہ اسرائیلی بلدیہ کی طرف سےتشکیل کردہ کمیٹی میں القدس کی صہیونی بلدیہ کے میئر نیر برکات، ڈپٹی میئر نعمی صور اور وزارت داخلہ کے زیر انتظام پلاننگ و بلڈنگ کمیٹی کے چئیرمین کے علاوہ حکومت کی طرف سے دیوار براق کے اہم عہدیدار شموئیل ربینو فیٹز اور قدیم شہر کو یہودیت میں تبدیل کرنے کے لیے کام کرنے والی مختلف تعمیراتی کمپنیوں کے عہدیداروں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ فلسطینی وکیل کا کہنا ہے کہ کمیٹی کی تشکیل کے بعد اب تک تین اجلاس ہو چکے ہیں ۔ پہلا اجلاس19 نومبر2009ء کو دوسرا اجلاس 03 جنوری 2010ء کو جبکہ تیسرا خفیہ اجلاس 14 جنوری2010ء کو ہوا۔ ان تمام اجلاسوں میں دیوار براق کے نواح میں نئی تعمیرات شروع کرنے اور پہلے سے بنائی گئی عمارتوں میں توسیع کے منصوبوں کی منظوری دی گئی۔ تعمیرات کے لیے کئی نئے نقشوں پر غور کے بعد ان میں معمولی ترمیم کے ساتھ ان پر عملی کام شروع کرنے کی بھی منظوری شامل ہے۔ وکیل ناصر کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے دیوار براق کے قریب تعمیراتی منصوبوں میں” جوہر ہاؤس” کا منصوبہ بھی شامل ہے. “جوہر ہاؤس” تعمیراتی منصوبے کے تحت ایک تین منزلہ عمارت کی تعمیر شامل ہے، جس پر کام جاری ہے۔ دیوار براق کے مد مقابل 3000 مربع میٹر کے علاقے میں زیر زمین کئی سرنگوں کی کھدائی کا عمل بھی جاری ہے اور جب سے دیوار کے احاطے کو یہودیت میں تبدیل کرنے کے لیے کمیٹی تشکیل دی گئی ہے سرنگوں کی کھدائی میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔ دیگر منصوبوں میں ایک یہودی مذہبی سکول کا قیام، قدیم تاریخی پارک اور ایک عجائب گھر بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی حکومت ایک جانب تعمیرات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ دوسری جانب یہودی سیاحوں کو علاقے کی طرف راغب کرنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے.