مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
غزہ میں دیر البلح کے کیمپ میں ایک ایسی رہائش گاہ، جو اب گھروں جیسی نہیں رہی، وہاں بزرگ ابراہیم ابو العطا اور ان کا خاندان زندگی کے بچے کھچے دن ملبے، یادوں اور ہمہ وقت منڈلاتے خطرے کے حصار میں گزارنے پر مجبور ہے۔
یہ خاندان چار محفوظ دیواروں میں نہیں بلکہ ایک ایسی پھٹی ہوئی چھت کے سائے تلے پناہ لیے ہوئے ہے جو کسی بھی لمحے زمین بوس ہوسکتی ہے۔ اس کے باوجود وہ ہر شام اسی گھر کی طرف لوٹ آتے ہیں، کیونکہ غزہ نے ان کے لیے کوئی اور راستہ باقی نہیں چھوڑا۔
اکتیس دسمبر سنہ 2023ء کو دیر البلح کیمپ میں واقع ابو العطا کا یہ گھر قابض اسرائیل کی جانب سے غزہ پر مسلط کی گئی جنگ کے دوران بمباری کا نشانہ بنا۔
تباہی صرف اینٹ پتھر تک محدود نہ رہی، بلکہ ابو العطا کی بہو اور پوتی شہید ہوگئیں، ایک پوتا زخمی ہوا اور گھر ایک ایسی سیمنٹ کی ڈھیر میں بدل گیا جو کسی بھی وقت گر سکتا ہے۔ اسے رہائش کے لیے غیر موزوں قرار دے دیا گیا۔ اس دن کے بعد یہ مکان پناہ گاہ نہیں رہا بلکہ محرومی اور جدائی کی مستقل گواہی بن چکا ہے۔
خطرے کے باوجود ابو العطا کو اسی گھر میں واپس آکر رہنا پڑا۔ وہ ہمارے نامہ نگار کو بتاتے ہیں کہ یہ فیصلہ خطرے کو نظرانداز کرنے کا نہیں بلکہ کسی متبادل کے نہ ہونے کا نتیجہ تھا۔
وہ کہتے ہیں’ خیمے بارش میں قائم نہیں رہ سکے، سردی ناقابل برداشت ہے، کوئی عارضی مکانات ہیں اور نہ ہی تعمیر نو۔ اسی لیے ہم ایک ایسی چھت کے نیچے رہنے پر مجبور ہیں جس کے گرنے کا ہمیں ہر لمحہ اندیشہ رہتا ہے۔
بے خواب راتیں، بارش اور انہدام کا خوف
جیسے ہی رات اترتی ہے، گھر کے اندر ایک نئی آزمائش شروع ہوجاتی ہے۔ خاندان کے افراد سرد سیمنٹ کے فرش پر بستر بچھاتے ہیں اور پھٹی ہوئی دیواروں سے فاصلے پر سونے کی کوشش کرتے ہیں، گویا پہلے ہی یہ اندازہ لگانے کی کوشش ہو کہ اگر چھت گری تو کس سمت گرے گی۔
کوئی بھی اطمینان کی نیند نہیں سوتا۔ ہر دراڑ کی آواز اور ہر تیز ہوا ایک خطرے کی گھنٹی بن جاتی ہے۔ ابو العطا بتاتے ہیں۔
بارش والی راتوں میں چھت اور دراڑوں سے پانی ٹپک کر فرش کو بھگو دیتا ہے۔ اہل خانہ جاگتے ہیں تو بستر بھیگے ہوتے ہیں، کپڑے نمی سے بوجھل اور جسم سردی سے کانپ رہے ہوتے ہیں۔
کبھی کبھار وہ پوری رات کھڑے یا بیٹھے گزارتے ہیں، صرف اس انتظار میں کہ بارش تھم جائے، اس خوف سے کہ کہیں سوتے میں اچانک چھت نہ آ گرے۔
خطرہ صرف بارش تک محدود نہیں۔ نمی اور ملبے نے اس گھر کو صحت کے لیے بھی غیر محفوظ بنا دیا ہے۔
رات کے وقت چوہے کھنڈرات سے نکل کر سونے کی جگہوں کے قریب آجاتے ہیں اور پہلے سے خوف زدہ راتوں میں ایک نیا اندیشہ شامل کردیتے ہیں۔ ابو العطا کہتے ہیں، ہم آنکھیں بند کرنے سے ڈرتے ہیں، یہ گھر اب گھر نہیں رہا۔
اعداد و شمار کے حصار میں گھری کہانی
ابراہیم ابو العطا کی کہانی کوئی انفرادی واقعہ نہیں بلکہ غزہ میں پھیلتے ایک بڑی انسانی المیے کا حصہ ہے۔
غزہ کی وزارت داخلہ کے مطابق جنگ کے نتیجے میں متاثرہ عمارتوں کے گرنے سے شہید ہونے والوں کی تعداد اٹھارہ تک پہنچ چکی ہے۔ اکتوبر میں سیز فائر کے نفاذ کے بعد سے مختلف گورنریوں میں چھیالیس عمارتیں منہدم ہوچکی ہیں۔
وزارت داخلہ نے بتایا کہ آخری واقعہ غزہ شہر کے محلے شیخ رضوان میں پیش آیا، جہاں چار شہری شہید ہوئے۔ ساتھ ہی اس بات سے خبردار کیا گیا کہ تعمیراتی سامان اور عارضی مکانات کی آمد پر پابندی برقرار رہنے اور موسم سرما کی آمد کے باعث صورتحال مزید سنگین ہوسکتی ہے۔
دفاعی شہری ادارے نے بھی تصدیق کی کہ دس دسمبر کو شروع ہونے والے حالیہ موسمی دباؤ کے بعد بائیس گھروں کو جزوی یا مکمل طور پر نقصان پہنچا، جس کے نتیجے میں اٹھارہ افراد شہید ہوئے، جن میں کچھ اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔
ادارے نے خطرناک قرار دیے گئے گھروں کو خالی کرنے کی اپیل دہرائی، مگر رہائش کے متبادل نہ ہونے کے باعث یہ اپیلیں عملی طور پر ناقابل عمل دکھائی دیتی ہیں۔
اس کربناک حقیقت میں ہزاروں شہری بارش میں ڈوبے خیموں اور گرنے کے خطرے سے دوچار گھروں کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں۔
ابراہیم ابو العطا اس اذیت ناک انتخاب کی جیتی جاگتی تصویر ہیں، یا تو ایسی چھت کے نیچے رہیں جو کسی بھی لمحے گر سکتی ہے، یا کھلے آسمان تلے زندگی کا سامنا کریں۔
غزہ میں جنگ بمباری رکنے پر ختم نہیں ہوتی، کچھ لوگ ہر رات اسی جنگ کے اندر زندہ رہتے ہیں، صرف اس امید کے ساتھ کہ صبح تک سانس باقی رہے۔
