Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

تازہ ترین

دنیا خاموش، غزہ میں قیامت قریب

غزہ ۔ مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن

غزہ میں موت کبھی ختم نہیں ہوتی۔ کبھی یہ توپوں کی گرج میں ہوتی ہے، کبھی بمباری کی دہاڑ میں اور جب یہ آوازیں تھمتی ہیں تو ملبے میں تبدیل گھروں کی لرزتی دیواروں میں جا بسیرا کرتی ہے۔ آج غزہ کے باسیوں کے لیے یہ شکستہ گھر خاموش مگر مہلک بارودی سرنگیں بن چکے ہیں، جو ہر لمحہ اپنے مکینوں کو ملبے میں بدل دینے کا خطرہ لیے کھڑی ہیں۔ نہ خدا کا خوف رکھنے والا دشمن رکتا ہے نہ مصیبتوں کا سلسلہ تھمتا ہے۔

ان کمزور دیواروں میں رہنے والے فلسطینیوں کے دل ہر نئے شگاف کے ساتھ کانپ اٹھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ شاید یہ آخری رات ہو، شاید یہ چھت اب صبح روشن نہ ہونے دے لیکن بے بسی کا اندھیرا اتنا گہرا ہے کہ پناہ کے لیے انہیں وہی شکستہ دیواریں چننا پڑتی ہیں جن پر زندگی کا سایہ لمحہ بہ لمحہ کم ہوتا جاتا ہے۔

فلسطینی مرکزی ادارہ برائے شماریات کے مطابق سات اکتوبر سنہ 2023 سے آٹھ جولائی سنہ 2025ء تک قابض اسرائیل نے جس وحشیانہ وحشت کے ساتھ غزہ پر قیامت ڈھائی اس نے ایک لاکھ نوے ہزار سے زائد عمارتوں کو برباد کر ڈالا۔ ان میں ایک لاکھ دو ہزار سے زیادہ گھر مکمل طور پر مٹی کے ڈھیر بن گئے۔ یہ تعداد محض اعداد نہیں، یہ فلسطینی آبادی کے ایک بڑے حصے کی وہ یادیں ہیں جو کبھی دیواروں سے ٹیک لگائے جی اُٹھتی تھیں، اب صرف خاک میں بکھر چکی ہیں۔

غزہ شہر میں عمارتوں اور ڈھانچے کا پچاسی فیصد قابض اسرائیل کی سفاکیت کی بھینٹ چڑھ گیا۔ مگر ظلم اتنا بے رحم ہے کہ زندہ بچ جانے والے لوگ انہی دراڑوں والی کمزور چھتوں کے نیچے سہمے ہوئے بیٹھے ہیں، جانتے ہوئے بھی کہ آنے والی ہر ہوا کا جھونکا ان کا آخری جھونکا ثابت ہو سکتا ہے۔

کراسنگ بند ہیں، دنیا کی طاقتیں خاموش ہیں اور غزہ کے لوگ خیمے، پناہ گاہیں اور عارضی گھر نہ ملنے کے باعث اپنی گردنیں اسی ملبے کے نیچے رکھ کر زندگی کو دھکیل رہے ہیں لیکن پھر بھی دل کے کسی گوشے میں امید کی ایک ننھی روشنی باقی ہے جو انہیں برداشت کی قوت دیتی ہے۔

زندگی اور موت کے درمیان ایک فیصلہ

شمالی النصیرات کے ابو بکر کی کہانی سُن کر دل رو پڑتا ہے۔ قابض اسرائیل نے ان کے گھر کے مغربی حصے کو یوں روند ڈالا کہ گھر پینتیس درجے کے خوفناک زاویے سے جھک گیا۔ ستون ٹوٹ چکے، دیواریں گر رہی ہیں، مگر ابو بکر اور ان کے بیٹے انہی چار منزلوں میں رہ رہے ہیں۔

وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ ’’ہم کہاں جائیں؟ کہاں سر چھپائیں؟ ہم نے بہت سوچا مگر آخرکار انہی دیواروں میں واپس لوٹ آئے۔ اب ہم ہر دن خدا کے سہارے گزارتے ہیں‘‘۔

یہ وہ آواز ہے جو دراصل پورے غزہ کی آواز ہے، وہ پتھر دل دنیا کے سامنے ایک سوال ہے جس کا جواب شاید کبھی نہ ملے۔

ام محمد کی کہانی تو اور بھی دل کو چیر دیتی ہے۔ ان کا اپنا گھر، ان کے بیٹے بیٹیوں کے گھر، سب حملوں کی نذر ہو گئے۔ وہ اپنے شہید بھائی کے تباہ شدہ گھر کے ملبے میں رہ رہی ہیں۔ ان کے الفاظ پتھر کو بھی خون رُلائیں۔

’’دنیا ہم پر تنگ ہو گئی ہے۔ اس شہر کی ہر گلی ہم سے چھین لی گئی۔ ہم مجبور ہو کر شہید بھائی کے گھر میں پناہ لینے آئے، مگر یہ ملبہ بھی ہمیں کھا جانے کو دوڑتا رہتا ہے‘‘۔

وہ، ان کی بیٹیاں اور ان کے نواسے اس ٹوٹے گھر اور ایک خیمے کے درمیان زندگی بانٹتے ہیں۔ انہیں جب معلوم ہوا کہ بارش آنے والی ہے تو پہلی بار انہوں نے دعا کی کہ آسمان نہ برسے۔ اس سے بڑی بے بسی شاید ہی دنیا نے کبھی دیکھی ہو۔

موسم سرما… ایک نئی تباہی کا پیش خیمہ

شہری دفاع کے ترجمان رائد محمود بصل کا بیان کسی وارننگ سے زیادہ ایک ماتم نامہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہی کمزور عمارتیں اب ہزاروں خاندانوں کے لیے موت کی کھلی راہ بن چکی ہیں۔ ان کے بقول جب تک تعمیر نو شروع نہیں ہوتی صورتحال ہر لمحہ بدتر ہوگی، مگر دنیا کی بے حسی غزہ کو ایک سیاسی فائل سمجھ کر سرد خانے میں ڈال چکی ہے۔

وہ آگاہ کرتے ہیں کہ غزہ کو کم از کم چار لاکھ پچاس ہزار خیموں کی فوری ضرورت ہے، وہ خیمے جو موسمِ سرما کی یخ بستہ آندھیوں کا مقابلہ کر سکیں۔ مگر یہ خیمے کسی سرحد سے نہیں آ رہے، کیونکہ قابض اسرائیل نے رحم کا آخری در بھی بند کر رکھا ہے۔

رائد بصل نے بتایا کہ الشوا اور الصبرہ میں گرنے والی عمارتوں نے حال ہی میں کئی فلسطینیوں کی زندگیاں چھین لیں۔ ’’یہ تو صرف آغاز ہے‘‘ وہ افسوس سے کہتے ہیں۔ ’’اس سال کا موسم سرما غزہ کی تاریخ کا سب سے ہولناک موسم ہوگا‘‘۔

زندگی کے بنیادی نظام، دفاعی ڈھانچے اور ریسکیو یونٹس سب کے سب تباہ ہو چکے ہیں۔ اگر بارشیں تیز ہوئیں، اگر ہوائیں چلیں، تو کوئی بھی یہ نہیں جانتا کہ کتنے گھروں، کتنی جانوں اور کتنی امیدوں کو یہ رات ہمیشہ کے لیے نگل لے۔

آخر میں وہ دنیا سے ایک فریاد کرتے ہیں، وہ فریاد جو شاید صدیاں گزرنے کے بعد بھی سمندروں، فضاؤں اور انسانوں کے سینوں میں گونجتی رہے
’’غزہ کو بچائیے… ورنہ سردی اس بار صرف موسم نہیں لائے گی، ایک اور قیامت لائے

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan