مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
غزہ میں لاکھوں شہری خود کو یا تو اپنے مسمار شدہ گھروں کے ملبے تلے پھنسا ہوا پاتے ہیں یا پھر ایسے بوسیدہ خیموں میں رہنے پر مجبور ہیں جو سردی سے بچا سکتے ہیں اور نہ بارش سے۔ اس صورت حال نے ان کی انسانی تکالیف کو دوچند کر دیا ہے۔ موسمیاتی نظام کی پہلی ہی لہر کے ساتھ سردی ایک قدرتی مظہر کے بجائے براہ راست جان لیوا خطرے میں بدل چکی ہے، ایسے میں جب قابض اسرائیل گذشتہ دو برسوں کی نسل کش جنگ کے دوران غزہ کی 70 فیصد سے زائد شہری تعمیرات کو تباہ کر چکا ہے۔
یورومیڈیٹرینین ہیومن رائٹس مانیٹر نے ایک سنگین انسانی المیے کے خدشے سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سینکڑوں تباہ شدہ یا شدید متاثرہ مکانات موسم کی تبدیلی کے ساتھ کسی بھی وقت منہدم ہو سکتے ہیں، کیونکہ مسلسل اسرائیلی بمباری نے ان کی تعمیراتی بنیادوں کو کمزور کر دیا ہے۔ ادارے نے واضح کیا کہ شہریوں کو زبردستی دو سفاکانہ انتخابوں کی طرف دھکیلا جا رہا ہے، یا تو وہ گرنے کے دہانے پر کھڑی عمارتوں میں رہیں یا پھر عارضی خیموں میں پناہ لیں جو انسانی وقار اور تحفظ کے بنیادی معیار سے بھی محروم ہیں۔
پناہ سے محرومی بطور پالیسی
غزہ شہر کے مغرب میں واقع تل الہوا محلے میں 52 سالہ محمد البیرم اپنے دراڑوں سے بھرے مکان کے پاس کھڑے ہو کر کہتے ہیں کہ ہر بار جب بارش ہوتی ہے تو ہم دہشت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ دیواریں پھٹ چکی ہیں اور چھت کسی بھی لمحے گر سکتی ہے۔ ہمارے پاس جانے کو کوئی اور جگہ نہیں اور خیمہ نہ سردی سے بچاتا ہے نہ بارش سے۔ ہمیں یوں لگتا ہے جیسے سردی خود ہمارا نیا دشمن بن گئی ہو۔
دیر البلح میں ایک سکول کے قریب بے گھر افراد کے لیے لگائے گئے خیمے میں رہنے والی پانچ بچوں کی ماں میادہ عبدہ اپنی تکلیف بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ رات کے وقت شدید سردی کے باعث نیند آنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ بارش ہر طرف سے اندر آ جاتی ہے اور بچے بار بار بیمار پڑ جاتے ہیں۔ ہم نے سمجھا تھا کہ خیمہ ایک عارضی حل ہو گا مگر یہ تو بغیر کسی تحفظ کے ایک کھلی جیل بن چکا ہے۔
یورومیڈیٹرینین مانیٹر کے مطابق یہ صورت حال محض ایک ہنگامی انسانی بحران نہیں بلکہ ایک منظم پالیسی ہے جس کے تحت محاصرے اور پناہ سے محرومی کو ایسا ہتھیار بنایا جا رہا ہے جو جان لیوا طرز زندگی مسلط کرتا ہے اور شہریوں سے محفوظ رہائش کا حق چھین لیتا ہے۔ ادارے نے اسے طویل المدتی جبری بے دخلی کی حکمت عملی قرار دیا جس کا مقصد زندگی کی بنیادی سہولتیں مٹا کر لوگوں کو ہجرت پر مجبور کرنا ہے۔
ادارے نے زور دیا کہ کسی بھی جواز کے تحت بنیادی انسانی ضروریات کو سکیورٹی شرائط یا سیاسی سودے بازی سے مشروط نہیں کیا جا سکتا۔ اس نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری اور مؤثر دباؤ ڈال کر غزہ میں عارضی رہائش گاہوں اور پناہ کے سامان کی ترسیل پر عائد پابندی اٹھوائے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب سردی کی شدت بڑھتی جا رہی ہے۔
یورومیڈیٹرینین مانیٹر نے مناسب رہائش کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ قابض اسرائیلی حکام کو فوری اور باضابطہ انتباہ جاری کریں کہ سخت موسمی حالات میں عارضی گھروں کی ترسیل پر پابندی برقرار رکھنا دانستہ قتل کے مترادف ہو سکتا ہے، جو بین الاقوامی انسانی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔
خطرات میں اضافہ
’انروا‘ کی ترجمان برائے ابلاغ ایناس حمدان نے کہا ہے کہ غزہ میں انسانی حالات ہر نئے موسمی دباؤ کے ساتھ مزید خطرناک ہوتے جا رہے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ہزاروں خاندان سردی اور بارش سے بچاؤ کے کسی حقیقی انتظام کے بغیر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پورے پورے خاندان غیر موزوں خیموں یا ایسی متاثرہ عمارتوں میں رہ رہے ہیں جو ان کی جان کے لیے براہ راست خطرہ بن چکی ہیں۔ ان کے مطابق پناہ کے سامان اور عارضی گھروں کی ترسیل پر پابندی بحران کو مزید سنگین بنا رہی ہے اور خاص طور پر بچوں اور بزرگوں کو شدید صحت کے خطرات سے دوچار کر رہی ہے۔
ایناس حمدان نے فوری طور پر انسانی امداد اور پناہ کے سامان کی اجازت دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اب فوری ردعمل کوئی آپشن نہیں بلکہ جانیں بچانے کے لیے ناگزیر ضرورت بن چکا ہے۔
اسی تناظر میں غزہ کی وزارت داخلہ اور قومی سلامتی نے اعلان کیا ہے کہ قابض اسرائیلی بمباری سے متاثرہ 46 عمارتوں کے منہدم ہونے کے نتیجے میں 18 افراد شہید ہو چکے ہیں، یہ واقعات سنہ 10 اکتوبر سے نافذ سیز فائر کے بعد پیش آئے۔
وزارت کے مطابق تازہ ترین واقعہ ہفتے کی شام غزہ شہر کے شیخ رضوان محلے میں پیش آیا جہاں ایک عمارت گرنے سے چار شہری شہید ہوئے اور شہدا کی مجموعی تعداد 18 تک جا پہنچی۔
ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب ایک عمارت جزوی طور پر اپنے مکینوں پر گر گئی، جس کے نتیجے میں پانچ افراد کو زندہ نکال لیا گیا جبکہ چار افراد اتوار کی صبح تک لاپتا رہے، بعد ازاں ملبے تلے سے دو کمسن بچیوں کی لاشیں نکال لی گئیں۔
وزارت داخلہ نے خبردار کیا کہ تعمیر نو پر پابندی اور قابض اسرائیل کی جانب سے موبائل گھروں کی ترسیل سے انکار کے باعث یہ المیہ مزید پھیل سکتا ہے، خاص طور پر سردیوں کے موسم میں جب متاثرہ عمارتوں کے مزید گرنے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔
وزارت نے عالمی برادری سے فوری اقدام کی اپیل کی کہ تعمیراتی سامان اور عارضی گھروں کی ترسیل ممکن بنائی جائے تاکہ بے گھر افراد کو محفوظ پناہ فراہم کی جا سکے۔ اس نے خبردار کیا کہ کسی بھی قسم کی تاخیر انسانی صورت حال کو مزید خطرناک بنا دے گی اور لاکھوں جانوں کو براہ راست موت کے خطرے سے دوچار کر دے گی۔
مسلسل محاصرے اور شدید سردی کے باعث غزہ میں موسم سرما محض قدرتی سختی نہیں رہا بلکہ ایک اور گواہ بن چکا ہے اس اذیت کا جو جنگ اور بے گھری نے مسلط کر رکھی ہے۔ ایک ایسا علاقہ جہاں سنہ 2023ء میں شروع ہونے والی دو سالہ جنگ کے دوران شہری بنیادی ڈھانچے کا تقریباً 90 فیصد تباہ ہو چکا، لگ بھگ 71 ہزار فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 71 ہزار سے زائد زخمی ہوئے، جبکہ اقوام متحدہ کے مطابق تعمیر نو کی لاگت تقریباً 70 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔
