(مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) غزہ پٹی میں قابض اسرائیل کی جانب سے فلسطینی عوام کے خلاف جاری قتل عام اور سفاکیت کی دستاویز بندی کے سلسلے میں یورومیڈیٹیرین ہیومن رائٹس مانیٹر کی ایک نئی تحقیق نے ایک ہولناک اجتماعی قتل کی مکمل تفصیلات آشکار کر دی ہیں۔ یہ قتل عام جنوبی غزہ کے شہر رفح میں ابو نحل خاندان کے خلاف کیا گیا جس میں 15 بے گناہ شہری شہید ہوئے جن میں 13 بچے اور خواتین شامل تھیں۔ یہ حملہ کسی بھی پیشگی وارننگ یا عسکری جواز کے بغیر کیا گیا۔
یورومیڈیٹیرین مانیٹر نے پیر کے روز شائع ہونے والی اپنی تحقیق میں بتایا کہ اس کی ٹیم نے ایک جامع فیلڈ تحقیق مکمل کی جس کا تعلق قابض اسرائیل کی فوج کے اس فضائی حملے سے ہے جو 17 فروری ہفتے کے روزسنہ 2024ء کی شام کو کیا گیا۔ اس حملے میں قابض اسرائیل کے جنگی طیارے نے رفح کے شمال مشرق میں واقع خربہ العدس کے علاقے میں ایک خاندانی بیٹھک کو نشانہ بنایا۔ اس دوران امریکہ میں تیار کیے گئے دو بھاری بم استعمال کیے گئے جن کے نتیجے میں یہ مقام مکمل طور پر تباہ ہو گیا اور اندر موجود تمام افراد ملبے تلے دب گئے۔
تحقیق کے نتائج جو جائے وقوعہ کے میدانی معائنے زندہ بچ جانے والوں اور عینی شاہدین کے بیانات اور ڈیجیٹل مواد کے تکنیکی تجزیے پر مبنی ہیں واضح کرتے ہیں کہ نشانہ بنایا گیا مقام مکمل طور پر شہری نوعیت کا تھا۔ یہ ایک موسمی رہائش گاہ تھا جسے خاندان نے اپنے اصل گھر سے جبری بے دخلی کے بعد کرائے پر لیا تھا۔ یہ جگہ ایک کھلے زرعی علاقے میں واقع تھی جو کسی بھی دوسری تنصیب سے الگ تھلگ تھی جس سے فضائی نگرانی کے ذریعے اس کے شہری ہدف ہونے میں کوئی ابہام باقی نہیں رہتا۔
یورومیڈیٹیرین مانیٹر نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ حملے کے مقام اور اس کے گرد و نواح میں کسی قسم کی عسکری موجودگی یا مسلح گروہوں کی سرگرمی موجود نہیں تھی۔ اس حقیقت نے کسی بھی نام نہاد عسکری ضرورت کے دعوے کو یکسر رد کر دیا اور تحقیق کے مطابق یہ ثابت ہو گیا کہ حملے کا مقصد زیادہ سے زیادہ شہریوں کو نشانہ بنانا تھا۔
تحقیق میں خاندان کے سربراہ ابراہیم ابو نحل کے بارے میں بھی تمام الزامات کو رد کر دیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق وہ اپنے علاقے میں ایک معروف تاجر تھے جو خوراک اور گاڑیوں کی تجارت سے وابستہ تھے۔ اکتوبر سنہ 2023ء میں نسل کش جنگ کے آغاز سے قبل بھی وہ یہی کام کرتے تھے اور جنگ کے دوران بھی معمول کے مطابق اپنا کاروبار جاری رکھے ہوئے تھے۔ وہ رفح کراسنگ کے ذریعے اپنی اشیا وصول کرنے کے لیے عام حالات میں آتے جاتے رہے اور انہوں نے کبھی ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا جس سے یہ ظاہر ہو کہ انہیں نشانہ بنائے جانے کا اندیشہ تھا۔
تحقیق میں یہ بھی دستاویزی شکل میں سامنے آیا کہ خاندان کے 16 افراد شادی کی خوشی میں ایک ہی کمرے میں عشائیے کی میز کے گرد جمع تھے۔ یہ تقریب بیٹے عبداللہ ابو نحل جن کی عمر 26 برس تھی اور ان کی کزن مریم جن کی عمر 20 برس تھی کی شادی کے موقع پر منعقد کی گئی تھی۔ رپورٹ کے مطابق ابراہیم ابو نحل جن کی عمر 57 برس تھی شام تقریباً 6 بج کر 50 منٹ پر رفح کراسنگ کے فلسطینی حصے سے وہاں پہنچے اور صرف دس منٹ بعد ہی قابض اسرائیل کے جنگی طیاروں نے ہلاکت خیز حملہ کر دیا جس نے پورے مقام کو نیست و نابود کر دیا۔
تحقیق میں واحد زندہ بچ جانے والے 16 سالہ بچے اسامہ ابراہیم ابو نحل کی دردناک گواہی بھی شامل کی گئی ہے۔ اسامہ نے بتایا کہ ہم سب شادی کی خوشی میں بیٹھے تھے کہ اچانک بغیر کسی انتباہ کے میزائل ہم پر آ گرے۔ میں ہوا میں اچھل گیا اور بے ہوش ہو گیا۔ ہوش آیا تو خود کو ہسپتال میں پایا جہاں میرا جسم زخموں اور جلنے کے نشانات سے بھرا ہوا تھا اور میرے ہاتھوں اور پیروں میں پلاٹین کی سلاخیں لگائی گئی تھیں۔ میں نے اپنی ماں اور باپ کے بارے میں پوچھا تو مجھے بتایا گیا کہ میرے ساتھ موجود سب لوگ شہید ہو چکے ہیں۔
ایک اور گواہی میں سامی ابراہیم ابو نحل نے بتایا کہ وہ حملے سے چند منٹ قبل قریبی دکان سے سامان لینے کے لیے نکلے تھے۔ انہوں نے کہا کہ جیسے ہی میں دکان پہنچا آسمان دن کی طرح روشن ہو گیا اور دو زوردار دھماکوں کی آواز آئی۔ میں بھاگ کر واپس آیا تو دیکھا کہ گھر زمین بوس ہو چکا تھا اور ہر طرف انسانی اعضا بکھرے ہوئے تھے۔ وہ سب ایک لمحے میں مٹا دیے گئے تھے۔
تباہی کے آثار کے فنی تجزیے خصوصاً گہرے گڑھوں سے یہ بات سامنے آئی کہ قابض اسرائیل کے طیارے نے دو انتہائی بھاری بم استعمال کیے جو غالباً GBU-31 ماڈل کے تھے یعنی MK-84 بم جن پر JDAM گائیڈنس نظام نصب تھا۔ ہر بم کا وزن تقریباً 900 کلوگرام تھا اور یہ اسلحہ عام طور پر مضبوط عسکری ٹھکانوں کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ ایک غیر محفوظ شہری عمارت کے خلاف کس قدر تباہ کن قوت استعمال کی گئی۔
یورومیڈیٹیرین مانیٹر نے وضاحت کی کہ ان بموں کے استعمال سے دھماکے کی شدت زمین اور انسانی جسموں میں جذب ہو گئی جس کے نتیجے میں شہدا کے جسم ٹکڑوں میں بٹ گئے اور ان کے اعضا آس پاس کے علاقوں حتیٰ کہ قریبی گھروں کی چھتوں تک جا پہنچے۔
تحقیق میں یہ بھی سامنے آیا کہ مئی سنہ 2024ء میں رفح پر زمینی حملے کے دوران قابض اسرائیل کی فوجی گاڑیوں نے اس اجتماعی قبر کو بھی مسمار کر دیا جہاں ابو نحل خاندان کے شہدا کو فلاڈیلفیا محور کے قریب دفن کیا گیا تھا۔ اس اقدام سے قبریں مٹ گئیں اور ان کے نشانات ختم ہو گئے جسے مانیٹر نے انسانی وقار کی صریح پامالی اور جرم کے شواہد مٹانے کی کوشش قرار دیا۔
یورومیڈیٹیرین ہیومن رائٹس مانیٹر نے زور دے کر کہا کہ ایک کھلے اور مکمل شہری ہدف کو بغیر کسی وارننگ کے حد سے زیادہ تباہ کن طاقت سے نشانہ بنانا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ قتل کی نیت پہلے سے موجود تھی۔ اس بنا پر یہ جرم نہ صرف جنگی جرم بلکہ انسانیت کے خلاف جرم ہے اور اس اجتماعی نسل کشی کا ایک اور ناقابل تردید ثبوت ہے جس کا مقدمہ عالمی عدالت انصاف میں زیر سماعت ہے۔
مانیٹر نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ نسل کشی کو روکنے کے لیے فوری اور پابند اقدامات کرے جن میں مستقل سیز فائر کا نفاذ شہریوں پناہ گاہوں اور بے دخلی کے علاقوں کا تحفظ اور مجرموں کے خلاف براہ راست سیاسی اور معاشی پابندیاں شامل ہوں۔ ان پابندیوں میں اثاثے منجمد کرنا اور سفر پر پابندی عائد کرنا بھی شامل ہونا چاہیے۔
ادارے نے ان ممالک سے بھی اپیل کی جو عالمی دائرہ اختیار کے اصول کو تسلیم کرتے ہیں کہ وہ غزہ میں ہونے والے جرائم کی آزادانہ فوجداری تحقیقات شروع کریں اور سیاسی اور عسکری سطح پر ذمہ دار افراد کے وارنٹ گرفتاری جاری کریں۔ ساتھ ہی عالمی فوجداری عدالت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ فلسطین کی صورتحال سے متعلق اپنی تحقیقات کو تیز اور وسیع کرے تاکہ مجرم کسی صورت سزا سے بچ نہ سکیں۔
