Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

پی ایل ایف نیوز

خطے پر تسلط کے لیے صیہونیوں کا صدی پرانا خاکہ

مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل، فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
مسئلہ فلسطین کوئی اچانک پیدا ہونے والا تنازع نہیں بلکہ ایک صدی پرانی منصوبہ بندی کا تسلسل ہے۔ صیہونیوں نے فلسطین پر قبضے اور خطے پر تسلط کے لیے اپنی تحریک کا آغاز بہت پہلے کر دیا تھا۔ اگر تاریخ کے اوراق پلٹے جائیں تو ہمیں نیپولین بونا پارٹ کے دور میں بھی یہ نظریہ نظر آتا ہے کہ یہودیوں کے لیے ایک علیحدہ وطن قائم کیا جائے۔ نیپولین اگرچہ اس خواب کو پورا نہ کر سکا، لیکن صیہونی تحریک نے برطانوی استعماری طاقتوں کے سہارے اسے حقیقت کا روپ دیا اور یوں سنہ 1948 میں اسرائیل نامی غاصب ریاست وجود میں آ گئی۔
یہ وہ لمحہ تھا جب غرب ایشیاء کی تاریخ ہمیشہ کے لیے بدل گئی۔ خطے میں جنگ، قبضے، بربادی اور عدم استحکام کا جو سلسلہ شروع ہوا، وہ آج تک جاری ہے۔
فلسطین پر قبضے سے بہت پہلے صیہونیوں نے ایک جامع منصوبہ بندی کر لی تھی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ سنہ 1919 میں پیرس امن کانفرنس کے دوران صیہونی رہنماؤں نے ایک نقشہ پیش کیا جس میں اُن کی مجوزہ گریٹر اسرائیل کی سرحدیں واضح طور پر دکھائی گئی تھیں۔یہ سرحدیں جنوب میں مصر کے صحرائے سینا سے لے کر شمال میں لبنان کے دریائے عوالی تک پھیلی ہوئی تھیں۔ یہ محض ایک تصوراتی تجویز نہیں تھی بلکہ مستقبل کی جارحانہ پالیسیوں کا خاکہ تھا۔
صیہونی رہنما جانتے تھے کہ اگر انہیں اپنے وجود کو مستحکم رکھنا ہے تو انہیں توسیع در توسیع کے عمل کو جاری رکھنا ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کے قیام کے بعد ہونے والی تمام جنگیں چاہے وہ 1948، 1967 یا 1982 کی ہوں، دراصل اسی 1919 کے توسیعی نقشے کے تسلسل میں شروع کی گئی تھیں۔
توسیع پسندی کی عملی شکل اس وقت سامنے آئی جب سنہ 1967 کی جنگ میں اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں، دریائے اردن کے اہم ذرائع اور شام کے آبی وسائل پر قبضہ کر لیا۔ بعد ازاں، 1978 اور 1982 میں اسرائیل نے لبنان پر حملے کئے اور بیروت تک پیش قدمی کی۔ ان حملوں کا مقصد محض فوجی کامیابی حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ خطے کے قدرتی وسائل، خاص طور پر پانی، پر کنٹرول حاصل کرنا تھا۔جیسا کہ سنہ1919 کے نقشوں میں دریائوں پر قبضہ کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی بھی کی گئی تھی۔
غاصب صیہونیوں کی جانب سے شروع کی جانے والی یہ جنگیں کسی دفاعی حکمتِ عملی کا حصہ نہیں تھیں بلکہ جارحانہ عزائم کا عملی اظہار تھیں، وہی عزائم جو 1919 کے نقشے میں درج تھے۔ اسرائیل نے لبنان میں طویل قبضہ برقرار رکھا، اس کے وسائل کا استحصال کیا اور سلامتی کے نام پر دراصل زمین پر قبضہ جمایا۔
واشنگٹن اور تل ابیب کےگٹھ جوڑسے وقت کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے توسیع پسندانہ منصوبے کو امریکی سرپرستی بھی حاصل ہوتی گئی۔ واشنگٹن اور تل ابیب نے مل کر خطے کو ازسرِنو ترتیب دینے کی حکمت عملی اپنائی۔ امریکہ نے ا س خطے کے لئے نیا مشرق وسطیٰ بنانے کا جملہ استعمال کیا تو صیہونی اپنے صدی پرانے منصوبہ یعنی گریٹر اسرائیل کی تکرار کرتے رہے لیکن دونوں کا مقصد ایک ہی تھا کہ اسرائیل کی توسیع کی جائے ۔مریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان نے کہ اسرائیل بہت چھوٹا ہے، دراصل اسی صہیونی توسیع پسندانہ سوچ کو تقویت دی۔
شامی خانہ جنگی کے دوران اسرائیل نے اپنی عسکری موجودگی کو جنوبِ شام تک بڑھایا، گولان کی پہاڑیوں پر گرفت مضبوط کی اور درعا و قنیطرہ کے قریب علاقوں میں اپنی کارروائیاں تیز کر دیں۔ دوسری جانب، امریکہ نے مشرقی شام کے تیل کے ذخائر پر کنٹرول حاصل کر کے اسرائیل کے اس منصوبے کو معاشی پشت پناہی فراہم کی۔
لبنان مسلسل دباؤ میں ہے اور لبنان اس وقت اسرائیل کی فوجی جارحیت اور امریکی سیاسی دباؤ کے درمیان گھرا ہوا ہے۔ ایک جانب اسرائیلی بمباری نے جنوبی لبنان کو مسلسل عدم استحکام میں مبتلا کر رکھا ہے، دوسری جانب واشنگٹن بیروت میں اپنے بڑے سفارت خانے کے ذریعے سیاسی دباؤ بڑھا رہا ہے۔ یہ دباؤ لبنان کو ایک ایسے انتظامی ڈھانچے کی طرف لے جا رہا ہے جو دراصل اسرائیلی سلامتی کے ایجنڈے کے مطابق ہو۔یہ تمام حالات اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ایک صدی پہلے بنایا گیا صہیونی منصوبہ آج بھی پوری طرح فعال ہے اور خطے کی سیاست اسی کے گرد گھوم رہی ہے۔
ایک نہ ختم ہونے والا خواب جو صیہونی منصوبہ، 1919 میں پیرس کانفرنس میں پیش ہوا تھا، آج بھی اپنی تمام جہتوں کے ساتھ زندہ ہے۔ سرحدیں عارضی ہیں، مگر توسیع ایک مستقل عمل بن چکی ہے۔ اسرائیل کی ہر جنگ، ہر فوجی مہم دراصل اسی صدی پرانے خواب کی تکمیل کی کوشش ہے۔
1919 میں جو نقشہ کھینچا گیا تھا، وہ آج خطے کی خون آلود حقیقت بن چکا ہے۔ لبنان، شام، فلسطین سب اسی منصوبے کے تسلسل میں جل رہے ہیں۔ اسرائیل کی جنگیں کبھی دفاع کے لیے نہیں ہوتیں؛ وہ قبضے کے لیے ہوتی ہیں، اس خواب کی تعبیر کے لیے جو اس غاصب ریاست کے پیدا ہونے سے پہلے ہی شروع ہوا تھا
خلاصہ یہ ہے کہ ایک صدی گزر جانے کے باوجود صیہونی منصوبے کے آثار ختم نہیں ہوئے۔ بلکہ اس کی شکلیں اور حربے بدل کر مزید پیچیدہ ہو چکے ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری خطے میں جاری اس توسیع پسندانہ پالیسی کو صرف فلسطین کا مسئلہ نہ سمجھے بلکہ اسے عالمی امن کے لیے خطرہ تسلیم کرے۔کیونکہ جب تک یہ منصوبہ موجود ہے، خطے میں پائیدار امن کا قیام محال ہے۔یعنی اسرائیل کا وجود نہ صرف فلسطین کے لئے بلکہ خطے کے تمام ممالک اور اقوام کے لئے سنگین خطرہ بن چکا ہے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan