اسلامی تحریک مزاحمت “حماس” کے سیاسی شعبے کے رکن اور سابق فلسطینی وزیرخارجہ ڈاکٹر محمود الزھار نے کہا ہے کہ تحریک فتح نے مفاہمت کےسلسلے میں کئی جوہری مسائل پر حماس کی تجاویز کو تسلیم کر لیا ہے. فتح کی قیادت اب تنظیم آزادی فلسطین” پی ایل او” اور آزاد الیکشن کمیشن کے قیام پر متفق ہو چکی ہے. ان کا کہنا ہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان فلسطیبن میں سیکیورٹی کے امور پر بات چیت اسی ماہ ہو گی اور اس پر بھی اتفاق رائے کا قوی امکان موجود ہے.
حماس کے مرکزی راہنما نے ان خیالات کا اظہار مرکز اطلاعات فلسطین کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں کیا. ان کے ساتھ ہونے والی تفصیلی بات چیت میں انہوں نے فلسطین کی موجودہ صورت حال پر گفتگو کی.
گفتگو کااحوال پیش خدمت ہے.
مرکز اطلاعات فلسطین:..حماس اور فتح کے درمیان مفاہمت کے لیے ہونے والی تازہ کوششوں کے بعد اب یہ اُمید کی جا رہی ہے کہ فلسطینی جماعتیں مصالحت کی طرف پیش رفت کر رہی ہیں. آپ کے خیال میں مستقبل قریب میں مصالحت کا کتنا امکان موجود ہے؟
ڈاکٹر محمودالزھار:… حالیہ دنوں حماس اور فتح کی قیادت کے درمیان ہونے والی ملاقات میں ان جوہری تنازعات پر بات چیت کی جو ماضی میں دونوں جماعتوں کے درمیان مختلف فیہ رہی ہیں. ان میں آزاد اور غیرجانبدار الیکشن کمیشن اور تنظیم آزادی فلسطین “پی ایل او” کی ازسر نو تنظیم سازی شامل ہیں.
ماضی میں فتح الیکشن کمیشن کے قیام کو محمود عباس کی نگرانی میں قائم کرنے پر مصر تھی تاہم اب فتح نے آزادانہ الیکشن کمیشن کی حماس کی تجویزتسلیم کر لی گئی ہے.اس کے علاوہ دونوں جماعتوں کے درمیان اس امر پر اتفاق ہوا ہے کہ پی ایل او کی موجودہ قیادت کے بجائے آئندہ کی انتظامیہ کے سے قبل عبوری قیادت کا چناٶ عمل میں لایا جائے گا. البتہ سیکیورٹی کے امور کے بارے میں دونوں جماعتوں نے آئندہ کی ملاقات میں تمام معاملات کو حتمی کرنے کا فیصلہ کیا ہے.جس انداز میں دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے قریب آ رہی اور ماضی کے دیرینہ اختلافی نکات کے حل پر متفق ہو رہی ہیں اس کے بعد یہ توقع کی جا سکتی ہے جلد یا بدیر مفاہمت کا عمل تشکیل پا جائےگا.اگر دونوں جماعتیں اگلے مرحلے کی ملاقات میں سیکیورٹی کے معاملات پر کسی درمیان حل پر متفق ہو جاتی ہیں تو آگے مفاہمت کا سفر آسان ہو جائے گا.
مرکز اطلاعات فلسطین:… فتح کے بعض راہنماٶں کا خیال ہے کہ سیکیورٹی کا معاملہ دیگر اختلافی نکات میں زیاہ پیچیدہ اور مشکل ہے اوراس پر دونوں جماعتوں کا اتفاق رائے کرنا کافی مشکل بھی ہے. کہیں یہ امکان تو نہیں کہ سیکیورٹی تنازع کے حل نہ ہونے کے باعث معاملات ایک بار پھرصفر پر آ جائیںِ؟
ڈاکٹر محمودالزھار:.. سیکیورٹی کے امور پر ماضی میں ہونے والے مذاکرات میں بھی بات چیت ہوتی رہی ہے. بہت سی باتیں اس حوالے سے بھی طے پا چکی ہیں، بہت امور ایسے ہیں جن پر مزید بات آگے بڑھانے اور اسے حتمی شکل دینے کی کوششیں ہو رہی ہیں. لہٰذا یہ تاثر درست نہیں کہ مذاکرات میں کوئی رکاوٹ پیدا ہو گی اور ایک بار پھر صورت حال ماضی کی طرف چلی جائے گی.
مرکز اطلاعات فلسطین:.. ذرائع ابلاغ کی سطح پر حماس اور فتح کے درمیان مفاہمت کی کوششوں کے بعد دونوں جماعتوں کے حامی میڈیا میں تنقید کم ہوئی ہے تاہم دوسری جانب مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کی سیکیورٹی فورسز کی انتقامی کارروائیاں اب بھی بدستور جاری ہیں. کیا یہ صورت حال مفاہمتی کوششوں کے لیے مضر نہیں؟
ڈاکٹر محمود الزھار:.. فلسطین میں قلیل اور مٹھی بھر افراد کا گروہ ایسا ہے جو مفاہمت نہیں چاہتا اور مفاہمتی کی کامیابی کو اپنی موت سمجھتا ہے. اس گروہ میں فلسطینی اتھارٹی کے زیرانتظام سیکیورٹی اداروں کے چوٹی کے قائدین بھی شامل ہیں. یہ لوگ چونکہ اسرائیل سے سیکیورٹی تعاون کا عزم لیے ہوئے ہیں اس لیے ان کے خیال میں فلسطینی جماعتوں کے درمیان مفاہمت ان کے کاز کو نقصان پہنچائے گی. اسی گروہ میں وہ ٹولہ بھی شامل ہے جس نے سلام فیاض کی سربراہی میں مغربی کنارے میں حکومت قائم کر رکھی ہے.مفاہمت کی صورت میں اور آزاد الیکشن کمیشن کے قیام کے بعد سلام فیاض گروپ کو اندازہ ہے وہ قومی انتخابات میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے. یہ حکومت امریکا اور اسرائیل کے لیے ضروری ہے کیونکہ یہ فلسطینیوں کے بجائے اسرائیلی مفادات کے تحفظ کے لیے کام کر رہی ہے.رہا مغربی کنارے میں حماس کے حامیوں کے خلاف مسلسل آپریشن اور ان کی مشکلات میں اضافہ کرنا تو اس کا مقصد بھی واضح ہے. اسرائیلی مفادات کے لیے سرگرم گروہ حماس کی عوامی حمایت ختم کرنا کرنا چاہتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ اس مقصد کے لیے طاقت اور نام نہاد سیکیورٹی اداروں کو استعمال کر رہا ہے. لیکن یہ امر واضح ہے کہ سلام فیاض اور ان کی سیکیورٹی کی کارروائیوں کے نتائج اس کے برعکس ہی برآمد ہوں گے. کیونکہ متشددانہ کارروائیاں حماس کی عوامی مقبولیت میں کمی کے بجائے اس میں اضافے کا باعث ہیں.
مرکز اطلاعات فلسطین:…فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان جاری امن مذاکرات اب ایک بند گلی میں جا چکے ہیں. اوسلو گروپ کے لیے واپسی کا کتنا امکان ہے اور ان مذاکرات کو کس نظرسے دیکھتے ہیں؟
ڈاکٹر محمودالزھار:… مذاکرات کے کسی بند گلی میں پہنچنے کا تاثر درست نہیں، امریکا مذاکرات کو ایسی سطح تک نہیں جانے دے گا کہ اس کے بعد کسی طرف نکلنے کا کوئی راستہ نہ رہے. امریکا کی اب بھی پوری کوشش ہے کہ راست مذاکرات کا سلسلہ اور محمود عباس اور نیتن یاھو کے درمیان مذاکرات جاری رہیں.یہ بھی خبریں ملی ہیں کہ نیتن یاھو اورمحمودعباس اسی ماہ فرانس میں صدرنیکولا سارکوزی کی ثالثی میں مذاکرات کریں گے. امریکی صدر براک اوباما کی حکومت کی کوشش ہے کہ وہ کانگریس کے دوسرے ٹرم کے انتخابات سے قبل فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع کرا دے تاکہ انتخابات میں کامیابی کا امکان باقی رہے. اس سلسلے میں ممکن ہے امریکا اسرائیل پر یہودی بستیوں کی تعمیر کے لیے دباٶ بھی ڈالے. اس کے علاوہ دیگرامکانات بھی موجود ہیں تاہم یہ امکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ مذاکرات کسی بند گلی میں چلیں جائیں گے. البتہ اتنا ضرور ہے کہ ان مذاکرات سے فلسطینی اتھارٹی یا فلسطینی عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا.
مرکز اطلاعات فلسطین:.. آپ ماضی میں اپنے بیانات میں کہہ چکے ہیں سابق فلسطینی صدر یاسر عرفات مرحوم رام اللہ میں اسرائیل کی طرف سے نظربندی کے دنوں میں حماس کو مسلح کارروائیوں کا کہہ چکے ہیں. کیا محمود عباس بھی اس پوزیشن پر آ سکتے ہیں؟
ڈاکٹر محمود الزھار:.. سابق صدر یاسرعرفات [مرحوم] نے حماس کواسرائیل کے خلاف مسلح کارروائیوں کا ضرور کہا تھا، تاہم وہ اس لیے نہیں کہ فلسطین میں وہ مزاحمت کی حمایت کرنا چاہتے تھے بلکہ وہ اسرائیل پر دباٶ بڑھانے کے لیے حماس کے ذریعے کارروائیاں کرانے کے حق میں تھے.ہمیں اچھی طرح یاد ہے. فتح کے قائدین اور یاسرعرفات کے زیادہ تر قریبی اور قابل اعتبار سمجھے جانے والے راہنما ھانی الحسن، ابو علی شاہین اور عبداللہ الحوارانی سے ہماری ملاقات جامعہ الازھر میں ہوئی تھی. اس ملاقات میں ان لوگوں نے یاسرعرفات کی اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ حماس کو اسرائیل کے خلاف مزاحمتی کارروائیاں کرنے پر قائل کریں تاکہ اسرائیل پر ان کے محاصرے کو ختم کرنے کے لیے دباٶ ڈالا جا سکے. رہےمحمود عباس تو ان میں اتنا دم خم نہیں کہ یہ اسرائیل کے خلاف مسلح مزاحمت کا راستہ اختیار کر سکیں.ہو سکتا ہے کہ وہ بھی مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لیے اس نکتے پر سوچ رہے ہوں لیکن حماس مذاکرات جاری رکھنے کے لیے مزاحمت کا راستہ نہیں بلکہ وسیع تر تزویراتی پہلو سے مزاحمت جاری رکھنے کی قائل ہے.
مرکز اطلاعات فلسطین:.. عام تجزیے سے ہٹ کر، موجودہ سیاسی صورت حال کے پیش نظر کیا آپ غزہ پر ایک اور حملے کا امکان دیکھ رہے ہیں؟
ڈاکٹر محمود الزھار:.. اسرائیل کی یہ شروع سے کوشش تھی کہ وہ فلسطین میں اپنی مرضی کا سیاسی سیٹ اپ لائے، لیکن وہ فلسطینیوں کی مرضی کے خلاف ایسا نہیں کر سکا. نتیجة اس نے غزہ کی معاشی ناکہ بندی کا سہارا لیا. اسرائیل جب اپنی مرضی مسلط کرانے میں ناکام رہتا ہے یا اپنا حامی سیاسی نظام نہیں دیکھتا تو جنگ کا سہارا لیتا ہے، لیکن یہ امر بھی مسلمہ ہے کہ اسرائیل کا یہ طرز عمل بھی کبھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوا.صرف یہی نہیں کہ اسرائیل غزہ یا فلسطین میں جنگ برپا کرتا رہا ہے، بلکہ اور پوری دنیا میں ہونے والی جنگوؤں کے پس منظر میں صہیونی ہاتھ کارفرما رہا ہے. اسرائیل کی دنیا بھر میں جنگوں کا ایک تسلسل ہے اور اب بھی کسی جنگ کے امکان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا.
مرکز اطلاعات فلسطین:… ذرائع ابلاغ میں حماس کے ہاں اسرائیلی جنگی قیدی گیلاد شالیت کے رہائی کے حوالے سے کوششوں کے کی اطلاعات آ رہی ہیں. کیا اس سلسلے میں کوئی تازہ پیش رفت ہوئی ہے؟
ڈاکٹر محمود الزھار:..عملی سطح پر اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی. صرف اسرائیلی ذرائع ابلاغ میں اس طرح کی خبریں دیکھنے کو ملتی ہیں، ان کا مقصد گیلاد شالیت کی رہائی کے لیے مظاہرے کرنے والوں اور خود اس کے خاندان کے مسلسل مطالبات کی حدت کو کم کرنا ہے.
مرکز اطلاعات فلسطین:.. آپ کے خیال میں فلسطینی تحریک مزاحمت 2008ء کی جنگ کے بعد کسی نئی جنگ کے لیے تیار ہے؟
ڈاکٹر محمود الزھار:… فلسطینی عوام کے سامنے ہمہ وقت یہ بات موجود ہے کہ وہ ایک قابض ریاست کے قبضے میں ہیں اور انہیں اپنے حقوق کی جنگ لڑنی ہے،. یہی وجہ ہے فلسطینی عوام اپنے دفاع، دشمن کو نقصان پہنچانے اور صہیونی دشمن کے باغیانہ پن کامقابلہ کرتے ہوئے اس کے مذموم عزائم کو خاک میں ملانے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے.