Uncategorized
“حماس” کے لبنان میں مندوب اسامہ حمدان کا مرکز اطلاعات فلسطین سے خصوصی انٹرویو
لبنان میں اسلامی تحریک مزاحمت “حماس” کے مندوب اسامہ حمدان نے فلسطینی تازہ صورت حال سے متعلق مرکز اطلاعات فلسطین کو خصوصی انٹرویو دیا ہے. ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل سلام فیاض کی سربراہی میں فلسطین میں اپنی مرضی کی فوج تشکیل دینا چاہتا ہے. انہوں نے کہا کہ موجودہ سیاسی بحران میں محمود عباس کا غیرقانونی طور پر صدارت کےعہدے پر چمٹے رہنا بھی ہے. وہ رخصت ہو جائیں تمام بحران حل ہو جائیں گے. حمدان کا کہنا ہے کہ القسام بریگیڈ کے مغربی کنارے میں یہودی فوجیوں کے ہاتھوں شہادت میں فلسطینی اتھارٹی برابر کی شریک ہے ایاد شلبایہ کی شہادت عباس اتھارٹی کی اسرائیل سے ملی بھگت کے نتیجے میں ہوئی ہے. ان کے قاتل اب چھپتے پھرتے ہیں اور انہیں سیکیورٹی اداروں کے دفاتر کے علاوہ کہیں بھی سکون میسر نہیں.ذیل میں اسامہ حمدان سے ہونے والی گفتگو پیش کی جاتی ہے.
مرکز اطلاعات فلسطین:… مغربی کنارے میں حالیہ پیش رفت بالخصوص حماس کے راہنماٶں اور کارکنوں کے خلاف کریک ڈاٶن اور القسام بریگیڈ کے کمانڈر ایاد اسعد شلبایہ کی شہادت کو آپ کس نظرسے دیکھتے ہیں؟ اسامہ حمدان:… طولکرم میں القسام بریگیڈ کے فیلڈ کمانڈر ایاد شلبایہ کی افسوسناک شہادت میں فلسطینی اتھارٹی کی ملیشیا کی اسرائیلی فوج کے ساتھ ملی بھگت تھی. اس کا اندازہ ان کی محمود عباس کی جیل سے رہائی اور شہادت کے درمیان مختصر عرصے لگایا جاسکتا ہے. محمود عباس کی جیل سے انہیں رہا کرنے کے 48 گھنٹے کے اندر ان کی شہادت ایک طے شدہ منصوبے کا حصہ تھی جس میں اندر سے فلسطینی ملیشیا بھی صہیونی فوج کے ساتھ تھی.عباس ملیشیا کی جارحیت اور دوغلا پن سے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شلبایہ کی شہادت کے بعد صہیونی جنگی مجرموں اور شلبایہ کے قاتلوں کا محاسبہ کرنے کے بجائے عباس ملیشیا نے صہیونی جرائم کی پردہ پوشی کے لیے جس وحشت اور درندگی سے حماس کے مجلس قانون ساز کے رکن عبدالرحمان زیدان کے گھر پر حملہ کیا وہ بھی اپنی جگہ ایک نہایت افسوسناک قدم ہے. عباس ملیشیا کے مرد اور خواتین اہلکاروں نے عبدالرحمان زیدان کے اہل خانہ سے جس بدتمیزی کا مظاہرہ کیا اس نے اسرائیلی قابض فوج کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے.میں سمجھتا ہوں کو مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی طاقت کے زور پر اپنا اثرنفوذ قائم کرنا چاہتی ہے لیکن اس مذموم مقصد کے لیے تمام اخلاقی قانونی اور سیاسی اقدار کو بھی فراموش کر دیا گیا ہے. فلسطینی اتھارٹی اور عباس ملیشیا کے اقدامات سے اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی بدترین سیاسی اور اخلاقی زوال کا شکار ہے اور یہ زوال اسے تباہی کے دھانے تک لے جا سکتا ہے.فلسطینی اتھارٹی کی مغربی کنارےمیں اپنی بالادستی کی کوششوں کے پس پردہ عوامی حمایت نہیں بلکہ اسرائیل اور امریکا کی پشت پناہی حاصل ہے جو زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی.
مرکز اطلاعات فلسطین:… چند روز قبل اسرائیلی فوج نے مغربی کنارے میں امن وامان کی صورت حال کےبگڑنے کا اندیشہ ظاہر کیا تھا. آپ کے خیال میں اسرائیل کے اس خدشے کی بنیاد کیا ہو سکتی ہے؟ اسامہ حمدان:…اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے میں قیام امن کی صورت حال خراب ہونے کے اندیشے کے پیچھے تین اہم اسباب ہیں.اول یہ کہ اسرایئل مغربی کنارے میں امریکی جنرل ڈائٹون کی تربیت یافتہ عباس ملشیا کی فلسطینی کشی پراس کا شکریہ ادا کرنے کےبجائے اس سے “ڈومور” کے لیے دباٶ بڑھانا ہے. اسرائیل کے اس دباٶ بڑھانے کا مقصد فلسطینی ملیشیا کو قومی سے باہر ایک ایسے گروہ میں تبدیل کرنا ہے جس کا مقصد ایک تیسرے ملک یعنی اسرائیل کی حمایت کے لیےکام کرنا ہے. اسرائیل کی یہ کوشش جنوبی لبنان میں ماضی میں قوم مخالف ملیشیا کی طرز پر ان کی تیاری ہے.اسرائیلی خدشے کی دوسری بنیادی وجہ صہیونیوں کا وہ ادراک ہے کہ فلسطین پر برطانیہ کے قبضے کے دوران سے اب تک 80 سال کے طویل عرصے کی بیت جانے کے باوجود فلسطینیوں میں مزاحمت کی قوت میں کمی کے بجائے اس میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے. اگرچہ فلسطینیوں کے مزاحمتی عزم و ارادے کو توڑنے کے لیے اسرائیل نے طاقت کے استعمال سمیت تمام ممکنہ راستے بھی اختیار کیے تاہم وہ اس میں مکمل ناکام رہا ہے. یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اب بھی وقتا فوقتا اس طرح کے شوشے چھوڑ کر فلسطینی آزادی کی تحریک اور مزاحمت کو دبانے کی کوشش کرتا ہے.تیسرا تاثر یہ ہے کہ اسرائیل فلسطینی صدر کے زیرکمانڈ ملیشیا کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ عباس ملیشیا کی اپنی کوئی حیثیت نہیں اور وہ اسرائیلی تحفظ کا محض ایک آلہ ہے جسے اسرائیل اپنی مرضی کے مطابق استعمال کر رہا ہے. عباس ملیشیا کو خبردار کیا جا رہا ہے کہ اگر تم نے تحریک مزاحمت کچلنے کے لیے اپنی ذمہ داریاں نہ نبھائیں تو پھر اسرائیل خود سیکیورٹی کا کنٹرول ہاتھ میں لے گا اور فلسطینی سیکیورٹی فورسز کو فراہم کردہ تمام سہولیات واپس لے لی جائیں گی.
مرکز اطلاعات فلسطین:… محمود عباس نے اسرائیل سے براہ راست مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں صدارت سے استعفیٰ دینے کا کئی بار عندیہ دیا ہے، آپ اس پر کیا کہیں گے؟ اسامہ حمدان :…محمود عباس کا صدارت سے استعفیٰ فلسطینی قوم کے لیے کوئی بحران نہیں بلکہ ایک بحران سے نکلنے کا ذریعہ بن سکتا ہے، کیونکہ فلسطین میں داخلی انتشار، مفاہمت کی ناکامی، فلسطینیوں کے حقوق پر افراط و تفریط کے ذمہ دار ہیں. اس کے علاوہ اوسلو معاہدے میں فلسطینیوں کی ہونے والی حق تلفیوں بالخصوص القدس اور پناہ گزینوں کے مستقبل کے حوالے سے حقوق پر پسپائی کی ذمہ داری بھی محمود عباس پرعائد ہوتی ہے. اب ایسے حالات میں اگر محمود عباس فلسطینی سیاست سے”آٶٹ” ہوتے ہیں تو کوئی پریشانی کی بات نہیں بلکہ فلسطینیوں کے لیے ایک اچھی خبر ہو گی.رہا محمود عباس کی طرف سے مسلسل استعفے کے لیے عندیہ دینا تو یہ اسرائیل پر ایک طرح کا دباٶ بڑھانا اور اپنی قیمت میں اضافہ کرنا ہے. محمود عباس کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اسرائیل سے مذاکرات صرف اسی صورت میں کامیاب ہو سکتے ہیں جب فلسطینی حقوق پر بڑے پیمانے پر پسپائی اختیار کر لی جائے. محمود عباس کو یہ بھی علم ہے کہ فلسطینیوں کے حقوق سے دستبرداری کی انہیں بھاری قیمت چکانا پڑ سکتی ہے، کیونکہ ایسا کرنے سے نہ صرف ان کی ذاتی ساکھ بری طرح متاثر ہو گی بلکہ ان کی ٹیم میں شامل تمام افراد دیگر سیاسی کھلاڑیوں کو بھی لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں.
مرکز اطلاعات فلسطین:… مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں مستقبل کے حالات کو حماس کس نظرسے دیکھتی ہے اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اور نتائج کیا ہوں گے؟ اسامہ حمدان:…اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کےدرمیان مذاکرات کی ناکامی یقینی ہے، کیونکہ فلسطینی عوام مذاکرات کی آڑ میں اپنے حقوق کی سودے بازی کی اجازت نہیں دیں گے. چنانچہ مذاکرات کی ناکامی کے بعد ہمارے سامنے دو راستے ہوں گے ایک کہ اس ناکام تجربے کو کسی نئی شکل میں جاری رکھنے کے لیے مذاکرات برائے مذاکرات کا ڈھونگ رچایا جائے یا ناکامی سے سبق حاصل کر کے اصل کی طرف واپس لوٹا جائے. میرا خیال ہےکہ مذاکرات کی ناکامی کے بعد فلسطینیوں کو مزاحمت کے گرد اکٹھا ہونے اور از سرنو اپنی صف بندی کا ایک بہترین موقع ملے گا.تاہم ایسی صورت میں ایک خطرناک پہلو یہ سامنے آ رہا ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کی صفوں میں اتحاد کو توڑنے کے لیے جنوبی لبنان کی طرز پر اپنے ایجنٹوں پر ملیشیا کی تیاری شروع کرے گا اور فلسطینیوں کو اس کے ساتھ لڑایا جائے گا. میرا وژن کہتا ہے کہ اسرائیل اس مقصد کے لیے فتح کے موجودہ غیر آئینی وزیراعظم کو اس کا ٹاسک سونپے گا . اس وقت سلام فیاض کو مزاحمت کے خلاف سیاسی کردار سونپا گیا ہے اور فلسطین کشی کے لیے ملیشیا کی تشکیل کے بعد فیاض کو سیاست سے ہٹا کرسیکیورٹی پر مامور کر دیا جائے گا.
مرکز اطلاعات فلسطین:…رکن قانون ساز کونسل عبدالرحمان زیدان کی گرفتاری پر حماس نے ردعمل میں کہا کہ فتح نے تمام حدود پامال کر دی ہیں. حدود کی پامالی تومسلسل طویل مدت سے جاری ہے. آپ اسے کس طرح دیکھتے ہیں؟ اسامہ حمدان:… آپ درست کہتے کہتے ہیں کہ فلسطین میں فتح کی جانب سے سیاسی مخالفین کو کچلنے کی روایت طویل عرصے سے چلی آ رہی ہے. کئی سال تک فتح نے حماس کو غزہ میں دبانے کے لیے اس طرح کی تخریبی کارروائیاں شروع کیں. وہاں پر بالآخر اسے عوام نے انتخابات میں بھی شکست دی اور فتح کو وہاں سے بھاگنے پر مجبور ہونا پڑا. افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ فتح اب وہی کھیل مغربی کنارے میں حماس کے ساتھ کھیل رہی ہے. مغربی کنارے میں حماس کے راہنماٶں اور کارکنوں پر فتح اور اس کی تیار کردہ اتھارٹی کے مظالم پر حماس کی خاموشی ایک حکمت عملی کے تحت ہے. فتـح کی یہ غلط فہمی ہے کہ حماس خوف زدہ ہے اور جوابی کارروائی کرنے سے گریزاں ہے. حماس کو کسی سے کوئی خوف نہیں اگر خوف اور خدشہ ہے تو وہ یہ ملک میں انارکی اور انتشار نہ پھیلے. پہلے سے اختلافات کی خلیج مزید گہری نہ ہو اور حالات خانہ جنگی کی طرف نہ جائیں. یہی وجہ ہے کہ حماس ان تمام تر مظالم کو نظرانداز کرتے ہوئے نہ صرف صبر کا دامن تھامے ہوئے ہے بلکہ فتح پر مفاہمت اور مصالحت کے لیے زور دیتی آ رہی ہے. میں یہاں فتح کو سمجھانے کے لیے عربوں میں مشہور ضرب المثل سے کام لوں گا کہ مشہور ہے کہ “بردبار اور حلیم کے غصے سے بچو کہ جب وہ آگ بگولا ہو جائے”. فتح اور فلسطینی اتھارٹی کی موجودہ روش کی وجہ سے فلسطینی عوام میں صدر محمود عباس یا ان کی جماعت کے لیے عوام میں کوئی نرمی یا ہمدردی کے جذبات نہیں رہے. حالت یہ ہے کہ فلسطینیوں کے قتل اور ان پر مظالم میں اسرائیل سے تعاون کرنے والے اس وقت سخت خوف کا شکار ہیں. وہ سڑکوں پراکیلے سفر نہیں کر سکتے، گلیوں اور محلوں میں شہریوں کے درمیان گھوم پھر نہیں سکتے، انہیں اگرسکون اور آرام میسر ہے تو وہ صرف عباس ملیشیا کے سیکیورٹی مراکز میں ہے جہاں چاروں طرف سے وہ سیکیورٹی کے حصار میں ہیں. اگروہ اپنی کارکردگی کی بنیاد پر فلسطینی قوم سے اپنے لیے احترام اور ہمدردی سے مطمئن ہوتے تو چوروں کی طرح بھاگتے نہ پھرتے.رہی یہ بات کہ عباس ملیشیا کی خواتین اور مرد اہلکاروں کی طرف سے فلسطینی مجلس قانون ساز کے رکن شیخ عبدالرحمان زیدان اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ جو ناروا سلوک کیا گیا اس کی مثال ہمیں صہیونی جنگی مجرموں کے سلوک میں بھی نہیں ملتی. جس انداز میں عباس ملیشیا نے شیخ زیدان کے گھر میں داخل ہو کر انے اہل خانہ کو اجتماعی تشدد کا نشانہ بنایا، ان کی خواتین کی عریاں تفتیش کی گئی اور بچوں کو مارا پیٹا گیا. بزرگ شیخ زیدان کو بیڑیوں میں جکڑ کر گھسیٹ کر گاڑی میں ڈالا گیا، اس سے بلا شبہ یہ واضح ہو گیا ہے کہ فتح اخلاقی اور سیاسی زوال کی انتہا کو چھونے لگی ہے. کیونکہ تشدد کسی محب وطن شہری کی اس طرح کی تذلیل کی کہیں اور مثال نہیں ملتی اور اس سے بڑھ کر کسی عزت دار گھرانے کی تذلیل نہیں ہو سکتی.البتہ یہ تمام کارروائیاں اپنی جگہ افسوسناک ہیں، لیکن فتح کو یہ بات بھولنی نہیں چاہیے کہ کل کو اس پر بھی ایسا وقت آ سکتا ہے. حماس کب تک اپنے کارکنوں کو صبر کی تلقین کرتی رہے گی. صبر کا پیمانہ چھلک پڑا تو فتح کو بہت سے قرض چکانے پڑ جائیں گے.
مرکز اطلاعات فلسطین:… مصری انٹیلی جنس چیف عمر سلیمان کی خالد مشعل سے ملاقات کے بعد کیا فلسطینیوں کے درمیان مصالحت کے لیے کوئی امید کی نئی کرن پیدا ہوئی ہے؟ اسامہ حمدان:… یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ فلسطینی دھڑوں کے درمیان مصالحت کی راہ میں کیا چیز رکاوٹ ہے. اگر وہ اصل رکاوٹ یعنی امریکی مداخلت ختم ہو جائے تو مفاہمت کرنے میں کوئی دیر نہیں لگے گی.حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ خالد مشعل نے تو فتح اور اپنی جماعت کی قیادت پر زور دیا ہے کہ وہ براہ راست مذکرات کریں اور دیکھیں کہ اصل رکاوٹ کو کیسے دور کیا جا سکتا ہے.فتح اور حماس کے درمیان مفاہمت کے معاملے پر اختلاف اس بنیاد پر ہے کہ فتح مفاہمت کے ذریعے اسرائیل سے کوئی سمجھوتہ کرنے کی کوشش میں ہے اور وہ عالمی سطح پر بالخصوص امریکا اور یورپ کے خطوط پر مفاہمت کو آگے بڑھانا چاہتی ہے. حماس کا مطالبہ ہے کہ مفاہمت اسرائیل یا امریکا کے مفاد کو مد نظر رکھنے کے بجائے فلسطینی عوام کے حقوق اور مفادات کے تناظر میں کی جائے.یہ بات طے ہے کہ فتح کو مصالحت کو کامیاب بنانے کے لیے امریکی ویٹو سے نکلنا پڑے گا. کیونکہ اس وقت مصالحت کا دروازہ اگر بند ہے توامریکا کی وجہ سے ہے.