Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

پی ایل ایف نیوز

حماس کو غیر مسلح کون کرے گا؟

مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
غزہ پر مسلسل اسرائیلی جارحیت اور فلسطینی عوام کی نسل کشی کا سلسلہ جاری ہے۔ اگر چہ امریکی صدر ٹرمپ کے ڈرامائی امن معاہدے پر کسی حد تک فریقین نے عمل کیا ہے لیکن اب بھی کئی ایک سوال موجود ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ کے پیش کردہ نام نہاد امن معاہدے میں آٹھ مسلمان ممالک بھی شامل ہوئےہیں اور پاکستان ان میں سے ایک ہے۔ امریکی صدر نے معاہدے میں کہا کہ حماس کو غیر مسلح ہونا ہو گا اور بدلے میں اسرائیلی افواج کو غزہ سے باہر نکالا جائے گا۔اگر چہ یہ مرحلہ جنگ بندی کادوسرا مرحلہ قرار دیا گیا تھا۔
پہلے مرحلہ می دو طرفہ قیدیوں کے تبادلہ کی بات ہوئی تھی جس کے لئے حماس نے تمام اسرائیلی قیدیوں کو رہا کر دیا ہے اور جو قیدی اسرائیلی بمباری میں مارے جا چکے تھے ان کی باقیات کو بھی تلاش کرنے کے بعد اسرائیل کو سونپ دیا گیا ہے۔البتہ ذرائع کاکہنا ہے کہ ایک اسرائیلی قیدی اب بھی حماس کے پاس موجود ہے۔ کچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ دو قیدی موجود ہیں لیکن ایک قیدی کی تصدیق ہو چکی ہے جس کا تعلق پولیس سے تھا۔
رین گویلی جس کا تعلق اسرائیل کی پولیس سے تھا غزہ میں حماس کے پا س تھا،حما س کی تصدیق کے مطابق یہ بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی وحشیانہ حملوں میں رین گویلی ہلاک ہو چکا ہے اور اب ملبہ کے ڈھیروں میں اس کی باقیات کو تلاش کرنا بھی نا ممکن ہو چکاہے۔دوسری طرف رین گویلی کے اہل خانہ کہتے ہیں کہ حماس کے پاس موجود ہے اور حماس اپنی شرائط منوانے کے لئے اسے واپس نہیں کر رہی ہے۔ حماس نے ان الزامات کو مسترد کر دیاہے۔
بہر حال اب قیدیوں کا تبادہ تو تقریبا مکمل ہو چکاہے او ر اب اس نام نہاد جنگ بندی معاہدے کا اگلا حصہ حماس کے غیر مسلح ہونے سے متعلق ہے اور ساتھ ساتھ غزہ سے اسرائیلی افواج کے انخلاء کے ساتھ مشروط ہے۔ لیکن پہلے مرحلہ میں بھی غاصب صیہونی حکومت اسرائیل نے کسی معاہدے کی پاسداری نہیں کی اور مسلسل غزہ میں بمباری اور حملے جاری رکھے یہاں تک کہ حماس کے ایک رہنما کو بھی شہید کیا گیا۔ان تمام تر خلاف ورزیوں کے بعد یہ امکان کم ہی ہے کہ اسرائیل غزہ سے افواج کو باہر لے جائے کیونکہ اسرائیل اگر افواج کو غزہ سے نکال لیتا ہے تو پھر اس کا مطلب ہو گا کہ اسرائیل کی پسپائی مزید یقینی ہو جائے گی اور نیتن یاہو اس کو کبھی قبول نہیں کرے گا۔
ٹرمپ کے جنگ بندی منصوبہ کے اگلے مراحل میں غزہ میں ایک عبوری حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے گا جبکہ چوتھے مرحلہ میں غزہ کی تعمیر نو مکمل کی جائے گی۔
ابھی دوسرا مرحلہ انتہائی اہم ہے کہ جس میں حماس کو غیر مسلح کرنے کے ساتھ ساتھ اسرائیلی فوج کو غزہ سے باہر بھیجنا ہے اور پھر غز ہ میں ایک عالمی استحکام فورس تعینات کی جائے گی جس میں مسلمان ممالک کی افواج کو دعوت دی جا رہی ہے کہ وہ اپنی افواج لائیں اور اس علاقہ میں تعینات ہوں۔ یعنی اس کے بعد اگر اسرائیلی افواج معاہدے کی خلاف ورزی کریں تو کون ذمہ دار ہو گا ؟ اس بات کی طرف ا س معاہدے میں کوئی بات نہیں کی گئی ہے حالانکہ پہلے مرحلہ کی خلاف ورزیوں کے بعد سے اب پوری دنیا محتاط ہو چکی ہے کہ اسرائیلی افواج اگر غزہ میں دوبارہ داخل ہو جاتی ہیں اور حماس جس کو پہلے ہی غیر مسلح کر دیا جاتا ہے تو پھر عالمی استحکام نامی فورس کس کا ساتھ دے گی ؟ کیا وہ فلسطینیوں کو اسرائیلی افواج کی جارحیت سے تحفظ فراہم کرے گی یا پھر تماشہ دیکھنے کا کام کرے گی؟ ان سوالات نے عالمی استحکام فورس نامی منصوبہ پر شکوک و شبہات اور سوالات اٹھا دئیے ہیں۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق عبرانی زبان کے اسرائیلی اخباراسرائیل ہایوم کے مطابق ترکی انٹرنیشنل سٹیبلائزیشن فورس (آئی ایس ایف) کا حصہ بننے کے لیے مسلسل دباؤ ڈال رہا ہے۔ اخبار کے مطابق اس فورس کے مینڈیٹ میں حماس کو غیر مسلح کرنا بھی ہو گا۔اخبار میں گذشتہ ہفتے شائع ہونے والے مضمون میں کہا گیا ہے کہ نتن یاہو اس معاملے میں دوٹوک موقف رکھتے ہیں کہ ترکی کو اس فورس میں شامل نہیں ہونے دیا جائے گا اور امریکہ بھی اسرائیل کے اس موقف کے ساتھ ہے۔
دوسری طرف امریکی عہدیداروں نے میڈیا کے سامنے بیانات میں بتایا ہے کہ پاکستان نے اس فورس کا حصہ بننے کی پیش کش قبول کی ہے۔البتہ ابھی تک کسی بھی مسلمان ملک کی جانب سے باقاعدہ اس فورس کا حصہ بننے کا اعلان نہیں کیا گیاہے۔ایک سینئر اسرائیلی عہدیدار باسکن کہتے ہیں کہ حماس یہ مان سکتی ہے کہ وہ اپنے ہتھیاروں کو منجمد یا ذخیرہ کر دیتے ہیں اور ممکنہ طور پر اُنھیں فلسطینی حکومت یا کسی تیسرے فریق کے حوالے کر سکتی ہے، لیکن وہ اپنے ہتھیاروں کو امریکہ یا اسرائیل کے حوالے ہرگز نہیں کریں گے۔اُن کا کہنا تھا کہ امریکہ کو بھی احساس ہے کہ حماس کو غیر مسلح کرنے کا تعلق غزہ سے اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا سے ہے اور یہ فی الحال بہت مشکل ہے، کیونکہ اسرائیلی فوج اب بھی غزہ کے اندر موجود ہے۔
گیروشن باسکن، ماضی میں کئی مواقع پر اسرائیل اور حماس کے درمیان رابطوں میں اہم کردار ادا کر چکے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ غزہ میں ایک اسرائیلی یرغمالی کی موجودگی دوسرے مرحلے کو التوا میں ڈالنے کا کوئی بڑا جواز نہیں ہے۔
یہاں ایک سوال اور اٹھتا ہے وہ یہ ہے کہ غزہ سے اسرائیلی فوج انخلاء کےبعد کہاں جائے گی ؟اس وقت اسرائیلی فوج غزہ کی پٹی کے تقریباً 53 فیصد حصے پر اپنا کنٹرول رکھتی ہے۔جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے کے تحت اسرائیلی فوج، شمالی، جنوبی اور مشرقی غزہ کی سرحدوں تک پیچھے ہٹ گئی ہے۔ یہ تقسیم ’بلیو لائن‘ کے نام سے مشہور ہو گئی ہے۔دوسرے مرحلے میں اسرائیلی فوج کی نئی تعیناتی لائن، تخفیف اسلحہ کے طریقہ کار، تعمیر نو اور بین الاقوامی نگرانی کے انتظامات پر باہمی معاہدے کی ضرورت ہے۔ان معاملات کو اسرائیل میں بہت حساس سمجھا جاتا ہے، کیونکہ اس کا تعلق غزہ سے ملحقہ اسرائیلی قصبوں کی سکیورٹی سے ہے۔ جبکہ مستقبل میں غزہ اور مصر کی سرحد پرموجود زمین کا ایک تنگ سا ٹکڑا ’فلاڈیلفی کوریڈور‘ اور رفح کراسنگ بھی اسرائیل کے لیے اہم ہے۔
اسرائیلی فوجی ذرائع ہر گز نہیں چاہتے ہیں کہ وہ غزہ سے باہر نکلیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ غزہ پر کنٹرول کھونے کا مطلب شکست ہے اور اپنے لوگوں کو وہ کیا منہ دکھائیں گے اور جواب کیسے دیں گے ؟اسی طرح حماس کبھی بھی اپنا اسلحہ امریکہ اور اسرائیل کے سامنے نہیں رکھے گی جیسا کہ حما س کی قیادت نے مختلف بیانات میں واضح کیا ہے کہ وہ غیر مسلح نہیں ہوں گے اور مزاحمت کے راستے کو ترک نہیں کریں گے۔
خلاصہ یہ ہے کہ دونوں اطراف میں ڈیڈ لاک برقرا ر ہے۔ حما س کو غیر مسلح کرنے کا امریکی و اسرائیلی خواب کافی پرانا ہو چکا ہے۔ ہمشیہ یہ کوشش کی جاتی رہی ہے لیکن امریکہ اور اسرائیل کو ناکامی کا سامنا رہاہے۔ اس مرتبہ بھی حما س کو غیر مسلح کرنے کا خواب امریکی صدر ٹرمپ کو اپنی قبر تک پہنچا دے گا جیسا کہ ان سے قبل صدور پہنچ چکے ہیں۔لہذا امریکی صدر ٹرمپ کی کوشش ہے کہ پاکستان سمیت مسلمان ممالک کی افواج کو غزہ بھیج دیاجائے اور حماس کو جلد از جلد غیر مسلح ہونے پر مجبور کیا جائے لیکن پاکستان کےعوام افواج پاکستان کے غزہ جانے کے خلاف ہیں ۔پاکستان کا کوئی بھی شہری نہیں چاہتا ہے کہ پاکستان کی فوج امریکی منصوبوں کا حصہ بن کر حماس کے خلاف استعمال ہو۔لہذا جنگ بندی کا دوسرا مرحلہ ابھی تک شروع نہیں ہو اہے اور اب بھی سوال یہی ہے کہ حماس کو غیر مسلح کون کرے گا؟ شاید اس کا درست جواب یہی ہے کہ کوئی نہیں کر سکتا جیسا کہ ماضی میں نہیں کیا جا سکا ہے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan