اسرائیلی فوجی انٹیلی جنس سروسز کے سابق چیف جنرل ریٹائرڈ اوری ساگی نے اسلامی تحریک مزاحمت حماس کی طاقت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ حماس اب صرف ایک تنظیم نہیں بلکہ ایک عوامی قوت بن چکی ہے جسے ختم کرنے کا خواب کبھی پورا نہیں ہو سکتا. انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ حماس کے ساتھ بقائے باہمی کا اصول اپنائے، کیونکہ اس کے علاہ اسرائیل کے پاس اور کوئی چارہ کار نہیں. ان خیالات کا اظہار جنرل ساگی نے اسرائیل کے ایک فوجی میگزین” دی وار” کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کیا.انہوں نے حکومت کو تجویز دی کہ وہ حماس کے ساتھ مذاکرات شروع کرے اور بقائے باہمی کا اصول اپناتے ہوئے نہ صرف اسے تسلیم کرے بلکہ اس کے جائز مطالبات پر بھی غور کیا جائے. انہوں نے اعتراف کیا کہ حماس سے بات چیت میں اسرائیلی لیڈر شپ کو بلا شبہ بڑی مشکلات پیش آئیں گی لیکن ان کا کہنا تھا کہ “میں سمجھتا ہوں کہ حماس سے بات چیت اسرائیل کی مجبوری ہے. یہ ایک ایسی بیماری ہے جس کا مذاکرات کے سوا کوئی دوسرا علاج نہیں” ایک سوال کے جواب میں سابق ملٹری انٹیلی جنس سروسز کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اسرائیل جب تک حماس کے حوالے سے نرم رویہ اختیار نہیں کرتا معاملات آگے نہیں بڑھ سکتے. مذاکرات سے بھی پہلے اسرائیلی قیادت کو لچک کا مظاہرہ کرنا چاہیے. انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی فوجی اور سیاسی قیادت اب بھی یہ سمجھتی ہے کہ وہ طاقت کے بل بوتے پر حماس کا قلع قمع کر دیں گے، لیکن یہ ان کی خام خیالی ہے. حماس اب ایک تنظیم نہیں بلکہ ایک عوامی قوت کا نام ہے اور دوسرا یہ تنظیم صرف فلسطین میں نہیں بلکہ بیشتر عرب ممالک میں اس نے اپنا اچھا خاصا ڈھانچہ قائم کر لیا ہے. ساگی کا کہنا تھا کہ اسرائیلی قیادت کے پاس آئندہ نسلوں کو پرسکون زندگی کی ضمانت فراہم کرنے کا کوئی فارمولہ نہیں. حماس کے ہاں گرفتار اسرائیل کے ایک جنگی قیدی گیلاد شالیت کے رہائی نہ ہونے کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال پر جنرل ساگی نے کہا کہ “یہ ہماری فوجی انٹیلی جنس کی ناکامی ہے وہ اب تک اپنے فوجی کا ٹھکانہ معلوم کرنے میں ناکام رہے ہیں اور دوسری طرف حماس اور جنگجوٶں کا کامیابی ہے کہ وہ اسرائیلی فوج کی رسائی کی راہ روکے ہوئے ہیں. گیلاد کے معاملے پر سابق فوجی عہدیدار نے موجودہ حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا. انکا کہنا تھا کہ حکومت کے غلط اقدامات اسے گیلاد شالیت کے معاملے میں مزید مشکل میں ڈال رہے ہیں. گیلاد کی رہائی کے لیے ایک سال پہلے جو قیمت ادا کی جانی تھی اب وہ کئی گنا بڑھ چکی ہے. لیکن اسرائیلی حکومت شائد اس کی قیمت بڑھانے کے لیے مزید انتظار میں ہے. ان کا اشارہ جرمنی اور مصر کی جانب سے حماس اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کے تبادلےسے متعلق کی جانے والی کوششوں کی طرف تھا.