صہیونی حکومت کے وحشیانہ اقدامات کے سلسلے ميں بعض عرب حکومتوں کی مجرمانہ خاموشی کے نئے نئے پہلوکھل کرسامنے آرہے ہيں مصرکے معروف اہل قلم ، نظریہ پرداز اورمصرکے سابق صدرجمال عبدالناصرکے سینئر مشیر حسنین ہیکل نے صہیونی حکومت کے جرائم کا ساتھ دینے کے تعلق سے بعض عرب حکومتوں کے افسوسناک اقدامات اورسازشوں کے بھیانک پہلوؤں کواجاگرکرتے ہوئے کہاکہ حقیقت میں عرب حکومتوں نے ہی فلسطینیوں کوغزہ میں محصورکررکھا ہے اورعرب حکومتوں نے ہی غزہ کے فلسطینی مسلمانوں کوبھوک اوررنج وآلام اورسرانجام تدریجی موت کی طرف دھکیل رکھا ہے ۔مصری نظریہ پرداز حسنین ہیکل نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اگرچہ صہیونی حکومت گذشتہ تین برسوں سے غزہ کا محاصرہ کئے ہوئے ہے لیکن غزہ کوایک کھلےقید خانے ميں تبدیل کردینے اوراس محاصرے کوپوری شدت کے ساتھ جاری رکھنے کی ذمہ دارصرف صہیونی حکومت ہی نہيں ہے بلکہ بعض عرب حکومتیں بھی اس گھناؤنے جرم میں برابرکی شریک ہیں اورفلسطینیوں پرہونےوالے مظالم میں ان عرب حکومتوں کا جرم صہیونی حکومت سے ذرہ برابربھی کم نہيں ہے ۔ یہ عرب حکومتیں غزہ کے محصورفلسطینیوں پرعرصہ حیات تنگ کئے ہوئے ہيں۔ مصری نظریہ پردازحسنین ہیکل کا کہنا کہ اسرائیل مسلسل عربوں پردباؤ ڈالنے کے لئے تھوڑے تھوڑے وقفے کےبعد نئے نئے منصوبے پیش کرتا ہے ۔ جبکہ دوسری طرف اسرائیل کواس کے مجرمانہ اقدامات سے روکنے کے لئے نہ صرف یہ کہ کوئی ٹھوس قدم نہيں اٹھایا جارہا ہے بلکہ صہیونی حکومت عرب دنیا کوچھوٹے چھوٹے معاملات میں الجھائے ہوئے ہے تاکہ یہ عرب حکومتيں تل ابیب کے خطرناک منصوبوں سے بے خبر رہي چنانچہ اسرائیل اس طرح عرب حکومتوں کی طاقت کوبھی زائل کررہا ہے ۔اگرچہ مصرکے سابق صدرجمال عبدالناصرکے سنئرمشیرحسنین ہیکل نے اپنے اس بیان میں کسی خاص عرب حکومت یا حکومتوں کا نام نہيں لیا ہے لیکن جب ہم علاقےکی بعض عرب حکومتوں کے رویوں اوراقدامات پرنظرڈالتے ہيں توحسنین ہیکل کا مقصود بخوبی سمجھ میں آجاتا ہے ۔ مصری حکومت جس نے تقریبا تین عشروں قبل کمیپ ڈیوڈ معاہدہ کیا تھا اس وقت سے مسلسل صہیونی حکومت کی خوش خدمتی اورچاپلوسی میں لگی ہوئی ہے اوراس نےاپنی تمام ترتوانائیاں اورصلاحتیں اسرائیلی منصوبوں کوعملی جامہ پہنانے کے لئے ہی صرف کررکھی ہيں ۔مصرکی حکومت نےغزہ سے ملنےوالی اپنی سرحدوں پرفولادی دیوارجوتیس میٹر گہری ہے تعمیرکرکے درحقیقیت غزہ کا محاصرہ مزید تنگ کرنے میں صہیونی غاصبوں کی ان کے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل میں بھرپورمدد کی ہے ۔ یہاں یہ بات قابل ذکرہے کہ غزہ میں محصور فلسطینی اپنی ضرورت کی اشیاء کی خریداری کے لئے سرنگین کھود کرکبھی کبھی غزہ سے باہرنکلتے اوراشیاء خوراک وادویات سمیت ضروریات زندگی کی چیزیں خرید کرلاتے تھے اگرچہ اس کے لئے انھیں کافی مشقتیں برداشت کرنا ہوتی تھیں لیکن مصری حکومت نے اسرائیلی فوج کی خفیہ ایجنسیوں سے تعاون کرکے ان سرنگوں کے بارے میں صہیونی فوج کومعلومات فراہم کیں اوریوں صہیونی فوج کے جنگی طیاروں نے بمباری کرکے ان سرنگوں کوتباہ کردیا جس کے نتیجے میں بہت سے فلسطینی ہمیشہ کے لئے ان سرنگوں میں ہی دفن ہوگئے ۔ مصری حکومت نے اس کے علاوہ فلسطینی گروہوں کےدرمیان مذاکراتی عمل میں رکاوٹیں پیداکرکے فلسطینیوں کوکبھی بھی کسی اتفاق رائے تک پہنچنے ہی نہیں دیا اور یوں قاہرہ کی حکومت نے صہیونی حکومت کےہی مقاصد پورے کئے۔ دوسری طرف مصری حکومت نے محمودعباس کی فتح تنظیم کے عناصرکو ٹریننگ دے کرحماس اورجہاداسلامی کے کارکنوں کواغواء اورانھیں شہید کرنے پراکسایا ۔ اس سے بھی بڑھ کرمصری حکومت کا کردار غزہ پرصہیونی حکومت کی بائیس روزہ جارحیت کے دوران اوراس سے پہلے کھل کرسامنے آیا۔ صہیونی حکومت کی ان بدترین مجرمانہ کاروائیوں کے دوران مصری حکومت نے اسرائیل کے ساتھ بھرپور انٹلیجنس تعاون کیا ۔مصری حکومت کے ساتھ ساتھ سعودی عرب، اردن اورمتحدہ عرب امارات نے بھی فلسطینی گروہوں پرمزید دباؤڈالنے کے لئے ایک سیاسی اتحاد قائم کرلیا۔ یہ تمام صورت حال اس وقت پیدا ہوئی جب فلسطینی عوام نے حماس کی قیادت پر اعتماد کرتے ہوئے حماس کومنتخب حکومت تشکیل دینے کے لئے اس پراپنے اعتماد کا اظہار کیا اورووٹ دے کراسے ایک منتخب حکومت کی تشکیل کی قانونی ذمہ داری سونپی۔ یہی وہ مرحلہ تھا جب امریکہ، اس کے یورپی اتحادی اوراسرائیل کے ساتھ ساتھ محمودعباس نے حماس کی زیرقیادت فلسطینی عوام کی منتخب حکومت پرعرصہ حیات تنگ کرنےکے لئے ہمہ جانبہ اقدامات شروع کردئے اوردوسری طرف رجعت پسند عرب حکومتوں نے بھی اسرائیل اورمغرب کی خوشنودی حاصل کرنےکے لئے فلسطینیوں کے لئے اپنی مالی امداد منقطع کردیں اوریوں حماس کی حکومت کا محاصرہ کرنے کے لئے غاصب صہیونی حکومت کا بھرپورساتھ دیا گیا۔ بعض ایسی بھی رپورٹیں ہيں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ غزہ کا محاصرہ اورحماس کا بائیکاٹ کرنے کی تجویزمحمودعباس نےخودہی دی تھی جس پر اسرائیل اوراس کے حامیوں سمیت رجعت پسندعرب حکومتوں نے ہر طرح ساتھ دینے کا وعدہ کیا ۔ غزہ میں محصورفلسطینیوں پران سارے مظالم اوردباؤ کے باوجود پچھلے برسوں کے دوران سعودی عرب کی حکومت کے بعض اقدامات یہ ثابت کرتے ہيں کہ سعودی عرب نے اس پوری صورت حال میں سب سے زیادہ گھناؤنا کردار اداکیا ہے اورسعودی عرب کا شاہی دربارہی آج فلسطین کے جہادی گروہوں کے مقابلے میں ایک مشترکہ محاذ کی سرپرستی کررہا ہے۔ چنانچہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ غزہ پربائیس روزہ صہیونی جارحیت سعودی عرب کی ایماء پرہی شروع کی گئی اوراتنے دنوں تک اسی کے کہنے پرجاری بھی رہی۔ جبکہ اس پوری جنگ پرآنےوالے اخراجات اسرائیل کوسعودی عرب کے دربار سے پورے کئے گئے تاکہ جیسے بھی ہوغزہ تہس نہس کردیا جائے ۔ جب ہم اس پوری صورت حال پرنظرڈالتے ہیں تویہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ غزہ میں صہیونی حکومت کی جارحیت سعودی عرب کی سیاسی اورمالی حمایت وتعاون سے ہی انجام پائي تھی اوراگرغزہ پرہونےوالے جرائم کے اصلی ذمہ داروں کی فہرست تیارکریں توصہیونی حکومت کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کا نام بھی سرفہرست آتا ہے ۔ مگریہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکہ اسرائیل یورپ اورعلاقے کی بعض عرب حکومتوں سمیت محمودعباس کی سازشی کاروائیوں کے تحت غزہ پرلگائی جانےوالی پابندیاں اورمحاصرہ ابھی تک ان حکومتوں کوان کے اپنے مقاصد کی تکمیل کی راہ میں بے سود ثابت رہا ہے۔ اگرچہ آج غزہ میں فلسطینی بچے بوڑھے اورخواتین انتہائي افسوسناک صورت حال سے دوچارہيں لیکن جس طرح سے بائیس روزہ جنگ میں کامیابی کی سالگرہ کی مناسبت سے غزہ کے عوام نے جشن فتح منایا اس کودیکھ کرپوری دنیا دنگ رہ گئي کیونکہ غزہ میں محصورفلسطینی بچوں، ماؤں اوربہنوں کےعزم وارادے اس بات کے منہ بولتے ثبوت تھے کہ تمام ترمظالم کے باوجود صہیونی حکومت اوراس کے علاقائی اوریورپی حامی فلسطینی مسلمانوں کے پائے ثبات میں ذرہ برابربھی لرزہ پیدا نہيں کرسکے ۔غزہ پرصہیونی حکومت کا حملہ اس غاصب صہیونی حکومت کی رہی سہی ساکھ کوبھی بری طرح متاثرکرگيا اورجس غاصب حکومت کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا کہ اسے کوئی بھی شکست نہیں دے سکتا اسے ڈھائی سال کے عرصے ميں حزب اللہ اورحماس سے دو بار ذلت آمیزشکست کا سامنا کرنا پڑا ۔اوراسی طرح غزہ کے حملے میں اسرائیل کوہونےوالی شکست کے بعد غاصب حکومت کوجس طرح سے عالمی سطح پرحقارت آمیزتنہائي کا سامنا کرنا پڑا اس کا اس نے اپنی غاصبانہ زندگی ميں کبھی بھی تجربہ نہيں کیا تھا اورتواورگولڈاسٹون رپورٹ کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے منظوری کے بعد آج صہیونی حکومت کے ساتھ اس کے عرب حامیوں کوبرابرکا شریک جرم سمجھا جارہا ہے جوحماس اورفلسطینیوں کوشکست دینے کا خواب دیکھ رہے تھے ۔