مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
لبنان میں اسلامی تحریک مزاحمت حماس کے مندوب احمد عبد الہادی نے لبنانی دارالحکومت بیروت میں اپنے دفتر میں فلسطین اور امہ کے مسائل کی حمایت میں سرگرم عوامی مہم کے وفد کا استقبال کیا۔ وفد کی قیادت اس کے جنرل کوآرڈینیٹر معن بشور کر رہے تھے جبکہ اس موقع پر تحریک کی سیاسی قیادت کے متعدد اراکین بھی موجود تھے۔
ملاقات کے دوران معن بشور نے حماس کے اڑتیسویں یوم تاسیس جماعت کی قیادت کو مبارک باد پیش کی اور کہا کہ اس تحریک کا قیام قابض اسرائیل کے ساتھ جاری جدوجہد کے سفر میں ایک فیصلہ کن اور معیاری موڑ ثابت ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ حماس نے ایک ناقابلِ تسخیر مزاحمتی قوت کے طور پر اپنی حیثیت مستحکم کی اور فلسطینی عوام، مزاحمت اور پورے فلسطینی قضیے کو نشانہ بنانے والی نسل کش جنگ کے مقابل ڈٹ کر کھڑے رہنے کی روشن مثال قائم کی۔
اس موقع پر احمد عبد الہادی نے کہا کہ حماس فلسطینی عوام کا اٹوٹ حصہ ہے اور ایک صدی سے زائد عرصے پر محیط فلسطینی مزاحمت کے سفر کا فطری تسلسل ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ حماس نے فلسطینی قضیے کو عالمی شعور میں زندہ رکھنے کے لیے عظیم قربانیاں پیش کیں تاکہ آزادی اور حقِ واپسی کا مقصد حاصل کیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ معرکہ طوفان الاقصیٰ فلسطینی جدوجہد کی تاریخ میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے جس نے فلسطینی قضیے کو دوبارہ عالمی توجہ کے مرکز میں لا کھڑا کیا اور قابض اسرائیل کے جھوٹے بیانیے کو دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا۔
احمد عبد الہادی نے وضاحت کی کہ حماس کی سالگرہ ایسے وقت میں آ رہی ہے جب قابض اسرائیل کی مسلط کردہ نسل کش جنگ کو دو برس مکمل ہو چکے ہیں۔ اس جنگ کے دوران فلسطینی عوام اور مزاحمت نے بے مثال ثابت قدمی اور استقامت کا مظاہرہ کیا جس نے قابض دشمن کے تمام اعلانیہ اہداف کو ناکامی سے دوچار کر دیا۔ انہوں نے فلسطینی عوام کو خراجِ تحسین پیش کیا جو جبری بے دخلی کے منصوبوں کو مسترد کر رہے ہیں اور ان تمام محاذوں اور آزاد اقوام کو سلام پیش کیا جو فلسطینی حقوق کی حمایت میں کھڑی ہیں۔
انہوں نے میدان کی تازہ صورت حال اور آنے والے سیاسی چیلنجز کے حوالے سے تحریک کے اسٹریٹجک وژن کا بھی جائزہ پیش کیا اور کہا کہ موجودہ معاہدہ انسانی اور قومی ضرورت کے تحت سامنے آیا جبکہ قابض اسرائیل عسکری ناکامی کے بعد طوفان الاقصیٰ کے نتائج کو کھوکھلا کرنے اور اس کی کامیابیوں کو مسخ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
احمد عبد الہادی نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ غزہ کی انتظامیہ کے لیے ایک مشترکہ فلسطینی قومی کمیٹی کے قیام کی کوششیں جاری رہیں گی۔ انہوں نے زور دیا کہ ہمہ گیر فلسطینی اتفاق رائے ہی کسی بھی بیرونی سرپرستی مسلط کرنے کی سازش کو ناکام بنا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک قابض اسرائیل کا قبضہ قائم ہے مزاحمت کا ہتھیار ایک جائز فلسطینی حق ہے جس کی ضمانت بین الاقوامی قوانین بھی دیتے ہیں۔
یہ تمام پیش رفت اس پس منظر میں سامنے آئی ہے کہ قابض اسرائیل سات اکتوبر سنہ 2023ء سے امریکہ اور یورپی حمایت کے ساتھ غزہ پر تباہ کن جارحیت جاری رکھے ہوئے ہے جس میں قتل، بھوک، تباہی، جبری بے دخلی اور گرفتاریاں شامل ہیں جبکہ عالمی اپیلوں اور عالمی عدالتِ انصاف کے احکامات کو کھلے عام نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
اس جارحیت کے نتیجے میں اب تک دو لاکھ41 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور زخمی ہو چکے ہیں جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔ اس کے علاوہ 11 ہزار سے زیادہ افراد لاپتا ہیں، لاکھوں فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں، قحط نے کئی جانیں نگل لی ہیں اور وسیع پیمانے پر تباہی نے غزہ کے بیشتر شہروں اور علاقوں کو مٹا کر رکھ دیا ہے۔
