غزہ ۔ مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
اسلامی تحریک مزاحمت “حماس” نے عالمی انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سات اکتوبر سنہ 2023ء کی کارروائیوں پر مبنی رپورٹ کی سختی سے مذمت کی اور اسے مکمل طور پر مبہم، جھوٹ کو چھپانے ، خلط مبحث اور قابض اسرائیل کے گمراہ کن بیانیئے کو اپنانے کی سوچی سمجھی کوشش قرار دیا۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم نے اس سے قبل پہلی بار حماس اور دیگر فلسطینی مسلح گروہوں پر جنوبی اسرائیل پر 7 اکتوبر کے حملے کے دوران “جرائم انسانیت کے خلاف” جرائم کے ارتکاب کا الزام عائد کیا تھا۔
اس دن حماس اور دیگر فلسطینی دھڑوں نے قابض اسرائیل کی فوجی تنصیبات اور بستیوں پر حملے کیے، اور اسرائیلی فوجیوں کو قید یا ہلاک کیا، جو فلسطینی عوام اور ان کے مقدسات پر قابض اسرائیل کی روزمرہ “جرائم” کے جواب میں کیا گیا آپریشن تھا۔
اس کے بعد قابض اسرائیل نے غزہ میں ایک نسل کشی کی جنگ شروع کی، جس کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور 171 ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے، جن میں اکثریت خواتین اور بچے تھے۔
حماس نے اپنے بیان میں کہاکہ “ہم عالمی انسانی حقوق کی تنظیم کی اس رپورٹ کو سختی سے مسترد اور مذمت کرتے ہیں، جو دعوی کرتی ہے کہ فلسطینی مزاحمت نے 7 اکتوبر 2023ء کو ‘آپریشن طوفان الاقصیٰ’ کے دوران قابض اسرائیل کی فوج کے خلاف جرائم کیے”۔
حماس نے وضاحت کی کہ اس رپورٹ کے اجراء کے پیچھے مقصد مغرض اور مشکوک ہے، کیونکہ اس میں وہ حقائق غلط طور پر پیش کیے گئے ہیں جو دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں، بشمول اسرائیلی تنظیموں نے دستاویز کیے ہیں۔
حماس نے مزید کہا کہ ان دستاویزات میں دعویٰ کیا گیا کہ سیکڑوں مکانات اور عمارتیں تباہ کی گئیں، حالانکہ یہ تباہی قابض اسرائیل کی فوج نے ٹینکوں اور فضائی حملوں کے ذریعے کی تھی، اور شہریوں کے قتل کے الزامات بھی غلط ثابت ہوئے کیونکہ متعدد رپورٹس نے یہ واضح کیا کہ قابض اسرائیل کے فوجی شہریوں کو ہلاک کر رہے تھے۔
حماس نے رپورٹ میں شامل قابض اسرائیل کی جھوٹ اور دعووں جیسے جنسی زیادتیوں، قیدیوں پر تشدد اور دیگر الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد مزاحمت کی بدنامی اور قابض اسرائیل کے فاشسٹ بیانیے کی حمایت کرنا ہے۔
حماس نے عالمی انسانی حقوق کی تنظیم سے مطالبہ کیا کہ وہ اس غیر پیشہ وارانہ اور مغلوط رپورٹ کو واپس لے، حقائق کو مسخ نہ کرے اور فلسطینی عوام اور ان کی جائز مزاحمت کو شیطانی رنگ نہ دے، اور قابض اسرائیل کے جرائم کی پردہ پوشی نہ کرے جو بین الاقوامی عدالت انصاف اور بین الاقوامی فوجداری عدالت کے دائرہ کار میں ہیں۔
حماس نے مزید کہا کہ قابض اسرائیل نے جنگ کے ابتدائی دنوں سے غزہ میں بین الاقوامی تنظیموں اور اقوام متحدہ کے اداروں کی آمد کو روکا اور آزاد تحقیقات کرنے والی ٹیموں کو حقائق تک رسائی سے محروم رکھا۔
حماس نے کہا کہ گواہوں اور شواہد پر یہ محاصرہ کسی بھی رپورٹ کو مکمل اور درست ہونے سے روکتا ہے اور پیشہ وارانہ اور شفاف تحقیقات میں رکاوٹ ڈالتا ہے۔
عالمی انسانی حقوق کی تنظیم نے جمعرات کو اپنی 173 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ فلسطینی گروہوں نے 7 اکتوبر اور بعد کی سرگرمیوں کے دوران بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی، جنگی جرائم اور جرائم ضد انسانیت کیے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ حماس نے تمام زندہ اسرائیلی قیدیوں کو 10 اکتوبر سنہ 2025ء کو شروع ہونے والے جنگ بندی کے معاہدے کے دوران رہا کر دیا اور مرحلہ وار وفات پانے والے قیدیوں کی لاشیں بھی حوالے کیں، سوائے ایک قیدی کے جس کی تلاش جاری ہے۔
رپورٹ کے مطابق فلسطینی دھڑوں نے قیدیوں کی حراست اور بدسلوکی، قبضے میں لی گئی لاشوں کی بے حرمتی کے ذریعے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی جاری رکھی۔
اسی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ 7 اکتوبر کو اسرائیل میں 1221 افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر شہری تھے اور یہ ایک نسل کشی کے جرم کے زمرے میں آتا ہے۔
رپورٹ میں قتل، نسل کشی، گرفتاری، تشدد، زبردستی غائب کرنا، زیادتی اور دیگر جنسی تشدد کے الزامات شامل کیے گئے، حالانکہ تنظیم صرف ایک کیس کو دستاویزی شکل میں پیش کر سکی، جس سے ان جرائم کے مکمل دائرہ کار کا تعین ممکن نہ ہو سکا۔